M. A. Hameed's Urdu writings

Friday, July 27, 2012

فرمایا شیخ رشید احمد نے

شیخ رشید احمد حکومت میں نہیں، نہ کسی بڑی پارٹی کے لیڈر ہیں لیکن وہ کسی بھی سیاست کار سے زیادہ ٹیلی ویژن چینلوں پر نظر آتے ہیں۔ (بلکہ آج کل تو شو میں بلا شرکت غیرے آتے ہیں۔) ان کی باتوں کے حوالے دیئے جاتے ہیں۔ بعض تو زبان کا حصہ بن گئی ہیں، جیسے "ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی۔" کوئی چینل اور کوئی میزبان ایسا نہیں جو ان کا انٹرویو کرنے سے انکار کرے کیونکہ اس سے اونچی ریٹنگ ملتی ہے۔
شیخ صاحب کے بارے میں ہر ایک کی اپنی اپنی رائے ہے۔ کوئی انھیں سخت ناپسند کرتا ہے اور کوئی بہت زیادہ پسند کرتا ہے۔ لیکن اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ ان کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہوتا ہے۔ وہ عوام کی زبان میں ان کی سوچ اور ان کے مسائل کا ذکر بھرپور انداز میں کرتے ہیں۔ چونکہ وہ انگریزی میں سوچ کر بات کا ترجمہ نہیں کرتے (کیونکہ ان کی انگریزی، ان کے اپنے مطابق، واجبی سی ہے) اس لیئے ان میں روانی بھی ہوتی ہے اور شدت جذبات بھی۔
دوسرے، وہ نہائت باخبر ہیں۔ انھیں اکثر پتہ ہوتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ ان کے "باخبر ذرائع" بڑے لوگوں کے چھوٹے لوگ (چوکیدار، چپڑاسی، ویٹر، آپریٹر، وغیرہ) ہوتے ہیں، جنھیں وہ خوش رکھتے ہیں۔ بہت دفعہ ان کی پیش گوئیاں صحیح نکلیں۔ اب ایک کا انتظار ہے۔ چند ماہ پہلے انھوں نے اعلان کیا کہ وہ 13 اگست کو لیاقت باغ، راولپنڈی، میں ایک بڑا جلسہ کریں گے اور اس میں اپنے پروگرام کا اعلان کریں گے۔ لگتا ہے کہ انھیں یقین تھا کہ یوم آزادی سے پہلے ملک میں سیاسی تبدیلی آ چکی ہوگی۔ اس وقت اس کے آثار نہیں دکھائی دیتے تھے لیکن اب بہت قریب نظر آ رہی ہے۔
شیخ صاحب کے ایک مداح نے ان کے کچھ اقوال جمع کیئے ہیں۔ ان میں ان کا عوامی انداز نظر آتا ہے اور عوامی دانش بھی۔ آپ کو ان کی ذات ناپسند ہو تو بھی ان کے اقوال کا لطف لے سکتے ہیں۔ اگر کبھی شیخ صاحب نے اپنے اقوال لکھ ڈالے تو ان کی کتاب بھی ان کے انٹرویو کی طرح بہت مقبول ہوگی۔
ایک نقطہ محرم کو مجرم بنا دیتا ہے۔
آصف علی زرداری کو اقتدار جہیز میں ملا۔
برلا جی کے مندر کا پرشاد بٹ رہا ہے۔
جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی
حکمرانوں کی اگلی نسل ان سے کہیں زیادہ کرپٹ ہے۔
صرف دو افراد 18 گھنٹے کام کرتے ہیں، ایک رحمان ملک اور دوسرے وینا ملک
کوئی ایک سیاسی لیڈر بھی ایسا نہیں جو فوج کی نرسری میں جواں نہ ہوا ہو۔
گڑھی خدا بخش میں چار جوان لاشیں دفن ہیں لیکن اقتدار کسی اور کو مل گیا۔
یوسف رضا گیلانی، مال پانی
مال بنائو، ڈنگ ٹپائو۔
میں نے زندگی میں پہلی بار ہومیوپیتھک جرنیل دیکھے ہیں۔
فوج ستو پی کر سو رہی ہے۔ اب تو لگتا ہے ناشتہ بھی گوند کتیرہ کا کرتی ہے۔
ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔
ڈریں اس وقت سے جب جھنڈے کے نیچے ڈنڈہ بھی ہوگا۔
لوگوں کے پاس دو ہی کام ہیں: ٹیلی ویژن دیکھنا یا ایس ایم ایس کرنا
آصف زرداری نے وزارتوں کی لوٹ سیل لگا دی ہے۔
سیاست میں بھی لائین اور لینگتھ دیکھ کر کھیلنا چاہیئے۔
میرا جی چاہتا ہے کہ سپریم کورٹ کی عمارت پر بنے ترازو پر ٹکریں ماروں کیونکہ وہ اپنے فیصلوں پر عمل نہیں کرا سکتی۔  
وزیر اعظم نے سپریم کورٹ میں کہا کہ اس کے فیصلہ کے باوجود خط نہیں لکھیں گے اور اس کے بعد پالیمنٹ میں اس طرح داخل ہوئے گویا قسطنطنیہ فتح کر لیا ہو۔
ہم عوام وہ گلے سڑے پھل ہیں جنھیں ٹوکری میں سے کوئی نہیں اٹھاتا۔
الیکشن میں عوام کو اس طرح استعمال کیا جاتا ہے جیسے دلھن ایک رات کی ہوتی ہے۔
میں عقلمندوں سے مخاطب ہوتا ہوں، بے وقوفوں سے نہیں۔
ہم کرائے کے لوگ ہیں۔ اپنا محل وقوع ہیچتے ہیں۔
پیادوں سے بادشاہ نہیں مرا کرتے۔
کھسروں کے گھر اولاد ہو تو یہی کچھ ہوتا ہے۔
عزت حکمرانوں کو راس نہیں آ رہی۔
زرداری صاحب نہ کھیلیں گے، نہ کھیلنے دیں گے۔
جمہوریت کے نام پر ڈاکو ماسک پہن کر لوٹ مار کر رہے ہیں۔
سیدھی انگلیوں سے نہ نکلے لیکن گھی نے نکلنا تو ہے۔
میں تو 25 یا زیادہ سے زیادہ 30 بور کا کارتوس ہوں۔
اگر ٹیلی ویژن چینلوں پر نرگسی مجرہ کرنا ہے تو میں سب سے اچھا کر رہا ہوں۔
میں نے نواز شریف سے کہا کہ باہر نکلیں اور عوام کو باہر نکالیں۔ اگر صرف ٹیلی ویژن پر پروگرام کرنے ہیں تو وہ مجھ سے بہتر کوئی نہیں کر رہا۔
عوام نے اگر حمام نہیں بننا تو گلی کوچوں میں نکلیں۔
اپنا عقیدہ چھوڑو مت، دوسروں کا عقیدہ چھیڑو مت۔
"رینٹل" سن کر ہی میں مینٹل ہو جاتا ہوں۔
ہمارے لیڈر ہمیں ڈانٹتے ہیں اور اپنی اولاد میں بانٹتے ہیں۔
اگر یہی حالات رہے تو سکندر اعظم بھی انھیں ٹھیک نہیں کر سکے گا۔
حکمران کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ ماں ہے۔ اگر یہ ماں ہے تو وہ 18 کروڑ باپ کدھر جائیں جنھوں نے اپنے نمائندوں کو پارلیمنٹ میں بھیجا؟
اگر کوئی 100 افراد اور 25 بچے اور غیرقانونی ڈنڈہ میرے حوالہ کر دے تو میں ملک کو تمام بیرونی قرضوں سے آزاد کر دوں گا۔

There is always a case behind a face.
Gang of five families (of five major parties) controls politics.
Every day is not Sunday.
Accident happens when driver drives foolishly.
Express train never waits the passenger (sic).
Now the country needs revolution۔ 


بلی کو اونٹ کے ساتھ کیوں باندھتے ہیں؟

کسی اونٹ پالنے والے نے منت  مانی کہ اگر اس کا کام ہو گیا تو وہ ایک اونٹ دس روپے میں بیچ دے گا۔ کام ہو گیا۔ اب منت پوری کرنی تھی۔ اس نے کیا کیا ایک بلی کہیں سے پکڑ لی اور اونٹ کے ساتھ بازار لے گیا۔ اونٹ کے گلے میں لکھ کر لگا دیا کہ اس کی قیمت دس روپے ہے۔ گاہک آتا تو اسے کہتا، "اونٹ تو دس روپے ہی کا ہے لیکن بلی کی قیمت 50 ہزار روپے ہے۔ آپ کو دونوں کا پیکج لینا ہوگا۔"
اسی طرح کی ہیرہ پھیری کالج اور یونیورسٹی والے کرتے ہیں۔ داخلہ فارم مفت ملا کرتا تھا۔ اب اسے پراسپیکٹس کے ساتھ لگا دیا گیا ہے۔ طلبہ کو دونوں کا پیکج لینا پڑتا ہے، وہ بھِی چالیس پچاس میں نہیں، ہزار دو ہزار روپے میں۔
چند ہفتوں میں داخلے شروع ہونے والے ہیں۔ جن طلبہ کو یقین نہیں ہوتا کہ انھیں پسند کے ادارہ میں داخلہ مل جائے گا، وہ کئی جگہ فارم جمع کراتے ہیں اور ہر جگہ "پیکج" خریدنا پڑتا ہے۔ یوں داخلہ ملے نہ ملے ہر طالب علم کے باپ کو ہزاروں روپے سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ امیدواروں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ اس سے کالج اور یونیورسٹی کی تو چاندی ہو جاتی ہے لیکن والدین کو سراسر نقصان ہوتا ہے، وہ بھی بغیر کسی فائدہ کے۔
پہلے یہ بیماری نجی اداروں میں آئی۔ پھر اس کے جراثیم سرکاری اداروں میں بھی داخل ہو گئے۔ فیسوں کے بارے میں تو پوچھیں مت کہ تعلیم جو کبھی حکومت کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی اب بہت بڑا کاروبار بن گیا ہے۔ امریکیوں نے ہمارے حکمرانوں کو سبق پڑھا دیا کہ جس طرح ہم کرتے ہیں آپ بھی کریں۔ تعلیم (اور صحت) کو عوام کا حق سمجھنا چھوڑ دیں، اسے کمائی کا ذریعہ بنائیں، خاص طور پر نجی شعبہ کے لیئے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جس گونمنٹ کالج، لاہور، میں میرے زمانہ میں فیس 12 روپے ماہوار ہوتی تھی اسی میں میرا نواسہ ہزاروں روپے ادا کرتا ہے۔
اخراجات کا بوجھ یہیں ختم نہیں ہو جاتا۔ ہر فارم کے ساتھ کئی دستاویزات بھی لگانے کے لیئے کہا جاتا ہے۔ وہ بھی تصدیق شدہ ہونی چاہیئیں۔ یوں ہر فارم کے ساتھ اضافی خرچہ کرنا پڑتا ہے۔ جتنے فارم، اتنا ہی بوجھ۔۔
کالج اور یونیورسٹی والوں کو اپنے آپ تو عقل نہیں آئے گی (آ سکتی تو مسئلہ پیدا ہی کیوں ہوتا؟) اس لیئے محکمہ تعلیم کو انھِیں حکم دینا چاہیئے کہ سرکاری اور نجی تمام تعلیمی ادارے فارم داخلہ مفت دیا کریں۔ اس کے ساتھ اپنی ویب سائیٹ پر بھی دیا کریں تاکہ امیدوار کہیں بھی ہو ڈائون لوڈ کر سکے۔
بہتر یہ ہوگا کہ تمام کالجوں اور یونیورسٹیوں کے لیئے داخلہ فارم ایک ہی ہو۔ اس میں تمام کوائف درج کر دیئے جائیں۔ (اگر کسی ادارہ کو اضافی کوائف درکار ہوں تو وہ داخلہ کے بعد لے سکتا ہے۔) یہ فارم کچہریوں اور دوسری جگہوں پر دو تین روہے میں مل جایا کرے گا۔ تعلیمی اداروں کو چھاپ کر تقسیم نہیں کرنے پڑیں گے۔
یہ کوئی نہیں بات نہیں ہوگی۔ مرکزی حکومت کے ایسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے تمام سرکاری دفتروں اور اداروں کو ہدائت کر دی ہے (میری تجویز پر) کہ ملازمت کے امیدواروں کو صرف ایک فارم پر کر کے بھیجنے کے لیئے کہا جائے۔ اس کے ساتھ کوئی دستاویز لگانے کے لیئے بھی نہ کہا جائے۔ اس میں مصلحت یہ ہے کہ امیدوار ہزاروں بلکہ بعض اوقات لاکھوں ہوتے ہیں جب کہ ملازمتیں صرف سینکڑوں میں ہوتی ہیں۔ یوں ناکام امیدواروں کو دستاویزوں کی کاپیاں کرانے، ان کی تصدیق کرانے اور ارسال کرنے پر بھاری مالی بوجھ اٹھانا نہیں پڑتا، جب کہ ناکام امیدواروں کے کاغذات ردی میں بیچ دیئے جاتے ہیں۔ پھر امیدوار کو صرف ایک جگہ ہی نہیں، ملازمت ملنے تک بے شمار جگہوں پر درخاست دینی پڑتی ہے۔
یہی پالیسی تعلیمی اداروں میں داخلہ کے لیئے ہونی چاہیئے۔ طلبہ کو فارم اور پراسپیکٹس کا پیکج خریدنے پر مجبور نہیں ہونا چاہیئے۔ آخر اونٹ پالنے والے اور تعلیم دینے والوں میں فرق ہونا چاہیئے۔ 

Thursday, July 26, 2012

یہ سب کون کروا رہا ہے اور کیوں؟

صحافیوں کو سکھایا جاتا ہے کہ جامع خبر میں دوسری تفصیل کے ساتھ "ک" سے شروع ہونے والے پانچ سوالوں کا جواب ضروری ہے: کیا، کیسے، کب، کون اور کیوں۔
اگر کسی صحافی سے اس کا ادارہ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے بارے میں جامع رپورٹ دینے کے لیئے کہے تو وہ آسانی سے اور تفصیل سے لکھ دے گا کہ کیا ہو رہا ہے، کیسے ہو رہا ہے اور کب سے ہو رہا ہے۔ لیکن جب ان سوالوں پر پہنچے گا کہ کون کروا رہا ہے اور کیوں تو اس کی انگلیاں کمپوٹر کے کی بورڈ سے ہٹ جائین گی اور مائیکرو فون کے سامنے اس کی زبان گنگ ہو جائے گی۔ آپ بے شک کہتے رہیں کہ"بول کہ لب آزاد ہیں تیرے" لیکن جس طرح میڈیا مالکوں اور صحافیوں پر ان دنوں ڈالروں کی بارش ہو رہی ہے اس کے پیش نظر الفاظ نہ اس کے کمپیوٹر کی سکرین پر نظر آئیں گے اور نہ ہونٹوں سے نکلیں گے۔
مجھے اور آپ کو تو نہ تو ڈالروں کا لالچ ہے اور نہ امریکہ کا خوف تو پھر کیوں نہ "کون" اور "کیوں" کے جواب تلاش کریں؟
کہانی شروع ہوتی ہے جولائی 2008 سے، جب امریکی جرنیل اور جاسوس افغانستان میں بار بار ناکامیوں کے بعد خود کو ذمہ دار ٹھہرانے کی بجائے صدر پرویز مشرف کو قربانی کا بکرہ بنانے میں آخرکار کامیاب ہو گئے۔ 2001 میں حملہ کے بعد وہ جلد ہی جان گئے کہ افغانستان پر قبضہ برقرار رکھنا لوہے کے چنے چبانا ہوگا۔ کم ظرف ہونے کی بنا پر وہ اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کی بجائے صدر مشرف کو الزام دینے لگے کہ وہ پوری طرح تعاون نہیں کر رہے۔
امریکی صدر جارج بش میں بہت سی برائیاں سہی لیکن ایک بڑی خوبی تھی کہ وہ یاروں کا یار تھا۔ وہ وزیروں، جرنیلوں اور جاسوسوں کو منع کرتا رہا کہ احسان فراموشی نہ کریں۔ اسے ہمیشہ یاد رہتا کہ مشکل ترین وقت میں صدر مشرف نے ساتھ دے کر امریکہ پر بہت بڑا احسان کیا تھا۔ چنانچہ جب پہلی بار کابینہ کی میٹنگ میں اسے بتایا گیا کہ پاکستان افغانستان پر حملہ میں رکاوٹ نہیں بنے گا اور جہاں تک ہو سکے گا خود کو نقصان پہنچائے بغیر مدد بھی کرے گا تو امریکی مصنف باب وڈورڈ کے الفاظ میں اس نے اپنی کابینہ سے کہا، "ہمیں اب صدر پاکستان کا خاص خیال رکھنا ہوگا کیونکہ انھوں نے سخت عوامی مخالفت کے باوجود ساستھ دے کر بڑا رسک لیا ہے۔"
حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ صدر مشرف نے افغانستان سے متعلق مطالبات تو مان لیئے لیکن پاکستان سے جو دو مطالبات کیئے گئے وہ نہ مانے: اول، امریکی فوج کو زمینی راستہ دینے سے انکار کر دیا۔ دوم، امریکی جہازوں کو ملک کی ساری فضا میں اڑنے کی آزادی کی بجائے صرف محدود ہوائی رستہ دیا اور ہنگامی صورت میں جیکب آباد اور شمشی ہوائی اڈوں پر اترنے کی اجازت دی۔ (اصل نام شمسی نہیں شمشی ہے۔ یہ ایک  گھاس کا نام ہے، جو اس علاقہ میں بکثرت پائی جاتی ہے۔)
امریکی جرنیل اور جاسوس بار بار کہتے رہے کہ ہم مرضی کا آرمی چیف لے آئین گے جو ہر طرح سے تعاون کرے گا لیکن بش ہر بار انکار کر دیتا۔ اگر وہ جولائی میں بھی کمزوری نہ دکھاتا تو نومبر میں نیا صدر آ جاتا اور پی پارٹی (پی۔ پی۔پی۔پی۔) کو صدر مشرف کے زیر سایہ کام کرنا پڑتا اور ق لیگ بھی شروع سے ہی اس کی شریک حکومت ہوتی۔
جونہی بش کی اجازت ملی، آصف علی زرداری سے کہا گیا کہ صدر مشرف کو ہٹانے کے لیئے مواخذہ کی تحریک لے آئے۔ وہ زرداری جو بار بار کہہ چکا تھا کہ مشرف کو صدر مان کر چلنے پر اسے کوئی اعتراض نہیں اچانک آنکھین دکھانے لگا۔ مواخذہ کا کوئی جواز نہ تھا کیونکہ اکتوبر 1999 کے بعد کے تمام اقدام کی پارلیمنٹ اور 2007 کی ایمرجنسی کی سپریم کورٹ توثیق کر چکا تھا۔ اس کے بعد کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا گیا جس پر مواخذہ ہو سکتا لیکن اقتدار کی ہوس میں سب کچھ ہو سکتا ہے۔ نواز شریف بھی ساتھ دینے کو تیار ہو گئے۔ مشرف پھر بھی ڈٹ جاتے لیکن جب پتہ چلا کہ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے ہیں تو جانا ہی پڑا۔
امریکیوں نے 2008 میں برسر اقتدار لائے گئے لیڈروں سے کئی کام لینے تھے:
اول، عوامی نیشنل پارٹی کی مدد سے صوبہ خیبر اور وفاقی قبائلی علاقہ (فاٹا) پر مشتمل نیا ملک ("پختونخوا") بنانا تھا۔ بعد میں اس میں افغانستان کے پشتو بولنے والے علاقے بھی شامل کرا دیئے جاتے۔ (انگریزوں کے کہنے پر غفار خاں نے 1947 میں یہی مطالب کیا تھا۔ نئے ملک کا نام "پختونستان" رکھا جانا تھا۔ اسی کے لیئے صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کرایا گیا۔ آزادی کے بعد بھی "پختونستان" کی تحریک چلائی تو مقدمہ درج ہو گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی سیاسی لیڈر کو عدالت کے ذریعہ غداری کے جرم میں قید کی سزا دلائی گئئِ۔)
اسفندیار 2007 میں الیکشن سے پہلے تین ہفتہ کے نہائت خفیہ دورہ پر واشنگٹن گئے اور سب کچھ مان کر آ گئے۔ چنانچہ ان کی عوامی نیشنل پارٹی کو حکومت دلائی گئی اور اس نے دل و جان سے تعاون کیا۔ صوبہ کا نام "پختون خوا" رکھنے کا مطالبہ تو 2003 سے ہی شروع کر دیا گیا تھا۔ (اس سے پہلے کیوں کبھی خیال نہ آیا؟) صوبائی حکومت بناتے ہی سندھ دریا کے پار اپنی طرف بڑے بڑے ہورڈنگ لگا دیئے گئے: "آپ پختونخوا میں داخل ہو رہے ہیں۔"
دوسری طرف امریکہ کے تیار کیئے ہوئے مقامی طالبان (تحریک طالبان پاکستان) کو کھلی چھٹی دے دی گئی کہ جہاں چاہیں بلا روک ٹوک دہشت گردی کریں۔ اگر فوج انہیں پکڑتی تو صوبائی حکومت نہ انہیں اپنی تحویل میں لیتی اور نہ ان کے خلاف کوئی کاروائی کرتی۔ عوامی نیشنل پارٹی کی کھلم کھلا ملک دشمنی کے باوجود فوج نے خود ہی پختونخوا کے قیام کا منصوبہ ناکام بنا دیا۔ پارٹی صرف صوبہ کا نام تبدیل کرا سکی، وہ بھی نواز شریف کی مہربانی سے۔
دوم، امریکہ کا اگلا نشانہ بلوچستان تھا، جسے وہ عرصہ سے الگ کرانا چاہتا تھا۔ وہاں تمام سیاسی پارٹیوں کو حکومت میں شامل کرا دیا گیا تاکہ سب کے منہ بند رہیں اور کوئی تخریبی کاروائیوں کی مخالفت کرنے والا نہ ہو۔ سو سے زیادہ قبیلوں والے صوبہ میں سے صرف بگٹی، مری اور مینگل کے بل بوتے پر علیحدگی کی تحریک چلائی گئی، جس نے تخریبی کاروائیاں تو بہت کیں لیکن عملی طور پر کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکی۔
سوم، امریکہ کا تیسرا بڑا مقصد ملک کو ہر طریقہ سے، خاص طور پر معاشی طور پر، تباہ کرانا تھا تاکہ وہ اتنا کمزور ہو جائے کہ اس کی فوج کو نہائت کمزور کر دیا جائے، ایٹمی طاقت ختم کر دی جائے اور اسے ہندوستان کا طفیلی ملک بھی بنا دیا جائے۔ اس مقصد کے لیئے نہ صرف زرداری بلکہ وفاق اور صوبوں میں برسراقتدار تمام پارٹیوں کے لیڈر بڑی تندہی سے کام کر رہے ہیں۔ امریکہ نے انہیں تسلی دے رکھی ہے کہ یوں تو وہ کرپشن کے خلاف ہے لیکن آپ لوگوں پر کوئی نکتہ چینی نہیں کی جائے گی۔ نہ ہی احتساب کا مطالبہ کیا جائے گا، عوام جو چاہے کہتے رہیں۔ نواز شریف کو طفل تسلی دی گئی کہ زرداری کی حکومت کو نہ گرنے دو تو اگلی باری مل جائے گی۔ فوج اور سپریم کورٹ کو بھی اب تک حکومت کو گرانے نہ دیا گیا۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں کو بھی دھن اور دھونس سے اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کیا گیا۔
چار سال سے زیادہ کھل کھیلنے کے باوجود پی پارٹی (پی۔ پی۔پی۔پی۔) کی ہوس ختم نہیں ہوئی۔ وہ پانچ سالہ میعاد کے آخری دن تک مہلت چاہتی ہے۔ دریں اثنا، اس کی ساکھ بالکل ختم ہو چکی ہے، لیکن پھر بھی امریکی چاہتے ہیں کہ اسے ایک باری اور مل جائے۔ تاہم اب تبدیلی کے لیئے رستہ صاف ہے، بشرطیکہ متعلق اہم افراد کے گھٹنے ایک بار پھر جواب نہ دے جائیِں۔
جب ہر لحاظ سے مکمل تبدیلی آ جائے گی تو کی بورڈ پر رکی ہوئی انگلیاں چلنے لگیں گی اور بند زبانیں بھی کھل جائیں گی۔ ہمارا میڈیا کلمہ حق کہنے کا جہاد تو کرتا ہے لیکن صرف اسی وقت جب جابر سلطان جا چکا ہو۔ 

پہلے یا دوسرے مصرع کی تلاش

    چو کفر از کعبہ برخیزد، کجا ماند مسلمانی؟
مصرع کا مطلب ہے کہ جب کعبہ ہی سے کفر اٹھنے لگے تو مسلمانی کہاں جائے؟ کسی نے پوچھا کہ اس کا پہلا یا دوسرا مصرع کیا ہے؟
مصرع وزن میں ہے تو اس کے آگے پیچھے بھی کچھ ہوگا۔ پہلی کوشش میں ایک عظیم شاعر اور ایک ممتاز عالم سے پوچھا لیکن وہ لاعلم تھے۔ سوچا کہ انداز شیخ سعدی کا لگتا ہے۔ چنانچہ ان کی مشہور تصنیف، "گلستان،" نکال کر کھنگالی۔ تاہم گوہر مقصود ہاتھ نہ آیا۔
آخر میں انٹرنیٹ سے رجوع کیا کہ آج کل یہ تحقیق کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ایرانی اور افغان فارسی کی کئی ویب سائیٹ پر اکیلے اسی مصرع کا حوالہ کئی جگہ ملا۔ لیکن بغیر دوسرے مصرع کے۔ ایک جگہ اس کے ساتھ یہ مصرع تھا:
چو کافر پرورَد مسجد، چه سود احکام قرآنی؟                        
(جب کافر مسجد کی دیکھ بھال کرے تو قرآن کے احکام کا کیا فائدہ؟)
ایک اور جگہ یہ مصرع ملا
چو دزد از خانه برخيزد کجا ماند نگهباني
(جب چور گھر ہی سے نکل آئے تو نگہبانی کیسے ہوگی)
        دونوں صحیح معلوم نہیں ہوتے۔ لگتا ہے تک بندی ہے۔ نیچے دی گئی ویب سائیٹ پر تو اسے پہلا مصرع لے کر لکھی گئی پوری نظم ہے۔
ایک فارسی ویب سائیٹ پر اس مصرع کو "ضرب المثلھای زبان اردو" میں شامل کیا گیا ہے، جیسے "پدرم سلطان بود،" جو ہیں تو فارسی میں لیکن صرف اردو میں استعمال کے لیئے وضع کردہ ہیں۔
        اگر انٹرنیٹ کا بھرپور استعمال ہو رہا ہوتا تو اردو کی کسی سائیٹ سے بھی پتہ چل جاتا کہ صرف ایک ہی مصرع ہے یا دو میں سے ایک۔ لیکن ہم پر کسی سامری نے ایسا جادو کر دیا ہے کہ ہم خط نستعلیق کے بچھڑے کی پوجا ہی نہیں چھوڑ رہے۔ اس کی وجہ سے دو دہائیاں پیچھے رہ گئے ہیں۔ دنیا میں 56 زبانیں عربی خط استعمال کرتی ہیں لیکن سوائے اردو کے سب نسخ میں لکھی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ پنجابی کو چھوڑ کر ہماری تمام علاقائی زبانیں بھی نسخ میں لکھی جاتی ہیں۔ لیکن ہم ہیں کہ ناکارہ گھوڑہ کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔
کرنے والا کام یہ ہے کہ کلاسیکی شاعری اور نثر کو انٹرنیٹ پر ڈالا جائے تاکہ تحقیق کرنے والوں کو نہ صرف مصرع بلکہ کسی ایک لفظ کو بھی ڈھونڈنا ہو تو دقت نہ ہو۔ اب تک جو مواد دستیاب ہے وہ حروف کی بجائے گرافک کی شکل میں ہے۔ یعنی یا تو کتاب کا عکس دے دیا جاتا ہے یا ان پیج میں کمپوز کر کے GIF میں تبدیل کر لیا جاتا ہے۔ دونوں صورتوں میں کسی ایک لفظ کی تلاش ممکن نہیں۔
کرنا یہ ہوگا کہ ان پیج کا 3.11 یا بعد کا کوئی ورشن استعمال کیا جائے۔ جو کچھ پہلے سے کمپوز کیا ہوا موجود ہو اسے اس پروگرام میں تبدیل کر لیا جائے۔ یونیکوڈ (UNICODE) سے مطابقت رکھنے والے کسی اور پرگرام سے بھی کام لیا جا سکتا ہے، جیسے مائیکروسافٹ ورڈ 2007 یا بعد کا کوئی ورشن۔
ضروری نہیں کہ کوئی ایک ادارہ یا فرد یہ کام کرے۔ ہر کوئی اپنی پسند کی کتابوں کی کمپوزنگ کر کے اپنی اپنی ویب سائیٹ پر ڈال دے۔ مثلا، اقبال اکیڈمی علامہ اقبال کی کلیات کمپوز کر کے اپنی ویب سائیٹ پر ڈال دے۔ افراد بھی اپنے اپنے پسندیدہ مصنفین کی کتابیں کمپوز کریں۔ جیسے جیسے یہ مواد انٹرنیٹ پر آتا جائے گا، تحقیق کرنے والوں کو آسانی ہوتی جائے گی۔ (البتہ کاپی رائیٹ والی کتابیں ناشر کی مرضی سے یا کاپی رائیٹ ختم ہونے پر انٹرنیٹ پر آ سکیں گی۔)
اس ساری کاوش سے کیا فائدہ ہوگا؟ کالج کے زمانہ میں پاکستان پبلیکیشنز (حکومت پاکستان) کے عربی رسالہ، "الوعی،" میں کسی عرب نے لاہور کے بارے میں مضمون میں لکھا کہ انگریز شاعر، جان ملٹن، کی کتاب، "پیراڈائیز لاسٹ" (Paradise Lost) میں بھی لاہور کا ذکر ہے۔ کئی سو صفحات کی کتاب میں ایک ایک سطر دیکھ کر اپنے شہر کا نام ڈھونڈنا تو بہت مشکل تھا۔ انگریزی ادب کے استادوں سے پوچھا لیکن کسی کو معلوم نہ تھا۔ آخرکار 1990 کی دہائی میں ایک ڈسک ملی، جس میں 5000 انگریزی کتابوں کا پورا متبن تھا کمپیوٹر مِن ڈال کر  ٹائیپ کیا تو کچھ نہ ملا۔ پھر سوچا کہ ہو سکتا ہے ملٹن کے زمانہ میں آج والے ہجے نہ ہوں۔ چنانچہ e مٹا کر کلک کیا تو ٹھک سے یہ سطر سکرین پر آ گئی:
To Agra and Lahor of great Mogul
(اشارہ شہنشاہ اکبرکی طرف تھا، جس کے دونوں صدر مقام تھے۔)
یوں چالیس سال بعد تجسس کی تسکین ہوئی۔ اگر کل کاشغر کا رہنے والا اقبال کے کلام میں اپنے شہر کا نام ڈھونڈنا چاہے تو اسے آسانی سے متعلقہ شعر مل جانا چاہئیئے:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

مالی پریشانیوں میں گھرے اخبار مالکان کو مشورہ

نیا اخبار نکالنا عشق کرنے کی طرح ہوتا ہے۔ حقیقت کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب مشکلات سر پر پڑتی ہیں، جیسا کہ حافظ شیرازی کہتے ہیں

کہ عشق آساں نمود اول ولے افتاد مشکلہا      
جب اخراجات پورے نہیں ہوتے تو کوتاہ اندیش مالکوں کو تنخاہیں نہ دینا یا ملازموں کو برخاست کرنا بچت کا سب سے آسان طریقہ نظر آتا ہے جبکہ ملازم کسی بھی ادارہ کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ انھیں چاہیئے کہ اچھے اور دل لگا کر کام کرنے والے ملازموں کو ہرگز ہرگز نہ جانے دیں اور نہ ہی انھیں مالی پریشانیوں میں ڈالیں۔ (مشہور کمپیوٹرکمپنی، آئی۔ بی۔ ایم۔، کے بانی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ میرا سب کچھ تباہ ہو جائے اور صرف میرے ملازم میرے پاس ہوں تو میں آئی۔ بی۔ ایم۔ کو نئے سرے سے کھڑا کر لوں گا۔)
اصل میں مالکوں اور ان کے ساتھ کام کرنے والوں کو اخبار کے تمام پہلوئوں سے پوری آگاہی نہیں ہوتی۔ صرف ادارتی امور پر ہی دست رس ہو پاتی ہے۔ چنانچہ انھیں سمجھ نہیں آتی کہ کیسے آمدنی بڑھائیں اور وہ بھی بالکل جائز طریقوں سے۔ چنانچہ وہ سالہا سال کے تجربہ کے باوجود اخبار کامیابی سے ہم کنار نہیں کر سکتے۔ انھین عملہ نکالنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیئے۔ اس کے علاوہ بھی اخراجات کم کرنے اور آمدنی بڑھانے کے کئی طریقے ہیں۔ اگر انسان خود کو عقل کل سمجھے تو پھر ناکام ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔
کسی بھی اخبار کو آسانی سے پیروں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ پیسہ کا کھیل نہیں بلکہ ذہن کی آماج گاہ ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارے ہاں اخبار شروع کرنے اور پھر اسے چلانے والے سمجھتے ہیں کہ انھیں سب کچھ آتا ہے۔ چنانچہ حیرانی کی بات نہیں کہ بیشتر اخبار مسائل میں گھرے ہیں یا ڈوبنے والے ہیں۔
ویسے جس شخص کو شہرت، دولت اور اقتدار میں سے کسی ایک کی بھی خاہش ہو، اسے اخبار نکالنا ہی نہیں چاہئے۔ یہ تو بے لوث اور جذبہ والوں ہی کا کام ہے۔

ساچی نہیں ساعتچی

ساچی نہیں ساعتچی
مشہور عالمی اشتہاری ایجنسی Saatchi & Saatchi کا نام عام طور پر "ساچی اینڈ ساچی" لکھا جاتا ہے. انگریزی میں یہی تلفظ ہے لیکن اصل میں کچھ اور بنتا ہے.
ایجنسی کے بانی دونوں بھایوں کے والد ناتھن ساعتچی دوسری جنگ عظیم کے بعد بغداد سے لندن چلے گۓ. ان کے ترک نسل کے بزرگوں میں سے کسی کا کاروبار گھڑیوں کا تھا، جس سے خاندانی نام ساعت (گھڑی) والے سے ترکی میں "ساعتچی" ہو گیا. (اس زمانہ میں عراق خلافت عثمانیہ میں شامل تھا۔) ہمارے ہاں ترکی سے ایک ایکٹرس آئی تھی، جس نے کئی فلموں میں کام کیا. اس کا نام نازاں ساعتچی تھا. اس زمانے میں افواہ تھی کہ ایکٹر محمد علی اس سے شادی کرنا چاہتے تھے. لیکن گھر والوں نے مخآلفت کی۔ پھر زیبا سے شادی ہو گئی۔
ترکی میں اس طرح کے کئی پیشوں کے نام ہیں، جیسے "توپچی" (توپ چلانے والا) یا "خزانچی" (خزانہ کا نگران). یہ اردو میں بھی استعمال ہوتے ہیں.
عراق میں بھی پیشہ کو نام کا حصہ بنانے کا رواج ہے. جیسے الزیات (تیلی) یا حداد (لوہار). ہمارے کشمیر میں بھی پیشہ نام کا حصہ بنایا جاتا ہے، جیسے "زرگر" (سنار) یا "بزاز" (کپڑا بیچنےوالا). ہمارے اپنے دیہات اور قصبوں میں شناخت کے لیے پیشہ کو نام کا حصہ بنا دیا جاتا ہے، جیسے ماجھا تیلی یا شیدہ کوچوان۔