Wednesday, August 08, 2012

کیا اینکر کے لیئے بدتمیز ہونا ضروری ہے؟

انور مقصود پاکستان ٹیلی ویژن پر انٹرویو دے رہے تھے۔ آخر میں ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا، "انٹرویو کرنے والے کو چاہیئے کہ مہمان کو اپنے سے برتر سمجھے۔"
اپنے آپ کو مہمان سے کم تر سمجھنے والے اینکر یا انٹرویو لینے والے آپ کو ٹیلی ویژن چینلوں پر بہت کم نظر آئیں گے۔ بیشتر کے رویہ سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ ان سے برتر کوئی ہے ہی نہیں۔
میزبان ٹاک شو یا انٹرویو کا آغاز بڑی لمبی تمہید سے کرتے ہیں ۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کیمرہ زیادہ سے زیادہ دیر ان پر رہے۔ یہ خیال نہیں رہتا کہ بہت سے دیکھنے والے اس دوران چینل بدل دیتے ہیں۔ ہاں، اگر میزبان خوش شکل خاتون ہو تو کچھ لوگ اس کا رخ زیبا دیکھتے رہتے ہیں، وہ بھی بغیر اس کی بات سنے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ عام طور پر خواتین میزبانوں کی تمہید مختصر ہوتی ہے!
کیمرہ اپنی طرف رکھنے کے لیئے بعض اینکر سوال بھی اتنے لمبے کر دیتے ہیں کہ مہمانوں (اور بہت سے دیکھنے والوں) کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا پوچھا جا رہا ہے۔ چنانچہ مہمانوں کی جو سمجھ میں آئے جواب دے دیتے ہیں۔ لیری کنگ، جو کچھ عرصہ پہلے سی۔ این۔ این۔ سے سبکدوش ہوئے، 40 سال تک انٹرویو کرتے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ ایک جملہ میں سوال نہیں پوچھ سکتے تو آپ کو انٹرویو کرنا نہیں آتا۔
اینکروں کے پاس سوالوں کی لمبی فہرست ہوتی ہے۔ انھیں اگلا سوال پوچھنے کی اتنی جلدی ہوتی ہے کہ پچھلے کا جواب بھی پورا نہیں ہونے دیتے۔ کئی مہمان تو احتجاج کرتے ہیں کہ انھیں بات تو پوری کرنے دی جائے۔ اینکروں کو اتنی سمجھ نہیں ہوتی کہ اہمیت کے لحاظ سے سوالوں کو ترتیب دے لیں۔ اس طرح وقت نہ ہونے سے سب سے کم اہمیت والے سوال ہی رہ جائیں گے۔
کچھ میزبانوں کو لاشعوری طور پر ڈر ہوتا ہے کہ انھیں دوسرا سوال کرنے کا موقع نہیں ملے گا (جیسے نیوز کانفرنسوں میں اکثر ہوتا ہے۔) چنانچہ وہ ایک ساتھ دو (بلکہ بعض اوقات اس سے بھی زیادہ) سوال پوچھ ڈالتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ میزبان ایک ہی سوال کا جواب دیتا ہے اور باقی سوال بھول جاتا ہے یا ٹال دیتا ہے۔
اگر مہمان کئی ہوں تو ایک مہمان کا جواب مکمل ہوئے سے پہلے ہی کسی اور سے سوال پوچھ لیا جاتا ہے، جس پر پہلا مہمان تلملا کر رہ جاتا ہے، خاص طور پر جب وہ فون پر بول رہا ہو۔ زیادہ مہمان یہ سوچ کر بلا لیئے جاتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ دیکھنے والوں کی پسند پوری کی جائے۔ یہ نہیں سوچا جاتا کہ اس طرح کسی کو بھی اپنی بات کہنے کا موقع بہت کم ملے گا۔ پھر کچھ مہمان دوسروں کا وقت بھی چھین لیتے ہیں۔ شریف قسم کے مہمان، خاص طور پر فون پر، شکائت کرتے ہیں کہ انھیں پروگرام میں شریک تو کر لیا گیا لیکن ان کی بات نہیں سنی جا رہی۔
اکثر اینکر "بے زبان" ہیں۔ تعلیم انگریزی میں ہوئی۔ کچھ عرصہ باہر بھی کام کیا۔ انگریزی بولنے کا آپ کو پتہ ہے غلامانہ ذہنیت والوں پر بڑا رعب پڑتا ہے۔ لیکن اس کا موقع اب نہیں ملتا۔ انگریزی کے جو دو تین چینل شروع ہوئے وہ بند ہو چکے ہیں کہ ان کے دیکھنے والے نہ ہونے کے برابر تھے۔ اب پروگرام اردو میں ہوتے ہیں اور بعض اینکر شرمندگی سے نہیں فخریہ کہتے ہیں کہ ان کی اردو کمزور ہے۔ یہ اتنی کمزور ہے کہ انھیں انگریزی لفظوں کا بے دریغ استعمال کرنا پڑتا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ صرف انگریزی میں ڈگری والے ہی ان کی پوری بات سمجھ پاتے ہیں۔ کئی دفعہ انگریزی کے پورے پورے جملے بول جاتے ہیں۔ انھیں "پریزیڈنٹ" اور "پرائِم منسٹر" کہنا آسان لیکن "صدر" یا "وزیر اعظم" مشکل لگتا ہے۔
انگریزی نوازی کا عالم یہ ہے کہ بہت سے پروگراموں کے نام انگریزی میں ہیں۔ کس لیئے؟ ناظرین کو مرعوب کرنے کے لیئے۔ یہ کام احساس کمتری کے مارے ہوئے ہی کر سکتے ہیں۔ اگر مارکٹنگ والے اصرار کرتے ہیں تو انھیں کہیں کہ سارا پروگرام ہی انگریزی میں کیوں نہیں کرا لیتے؟ کسی کے پلے کچھ پڑے نہ پڑے، رعب ضرور پڑے گا۔
سیاسی ٹاک شو میں کوٹہ سسٹم ناگواری پیدا کرتا ہے۔ کئی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو بلا لیا جاتا ہے۔ اکثر پارٹیوں کی قیادت طے کرتی ہے کہ اس کی طرف سے کون شریک ہوگا اور اینکر کو مجبورا اسے لینا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے ان میں سے ہر ایک اپنی ڈفلی بجائے گا۔ ہر نمائندہ نے ہر صورت میں اپنے لیڈر اور اپنی پارٹی کا دفاع کرنا ہوتا ہے۔ اگر موقف کمزور ہو تو ماضِی بعید سے بات شروع کی جاتی ہے تاکہ میزبان تنگ آ کر کسی اور سے سوال کر دے اور جواب دینے کی نوبت ہی نہ آئے۔ دوسری صورت میں عذر لنگ کی بیساکھی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اکثر دیکھنے والوں کو خاصہ تجربہ ہو گیا ہے کہ سیاسی لوگ سچ بولنے کی بجائے کج بحثی ہی کریں گے۔ چنانچہ وہ چینل بدل لیتے ہیں۔
اینکروں کی کھال نہائت پتلی ہوتی ہے۔ ذرا کسی نے ان پر نکتہ چینی شروع کی اور وہ فورا صفائی دینے لگتے ہیں۔ اتنا صبر بھی نہیں ہوتا کہ مہمان کی بات پوری ہونے دیں۔ میزبان کی حیثیت سے ان کے لیئے بڑا آسان ہے کہ اپنا موقف بعد میں تفصیل سے بیان کر لیں۔ بعض تو مہمان کے چپ ہونے کا انتظار بھی نہیں کرتے اور تو تو میں میں کرتے رہتے ہیں، جبکہ دیکھنے والوں کے کچھ پلے نہیں پڑتا۔
بعض اینکر بی جمالو کا کردار ادا کرتے ہیں۔ کسی کو دوسرے سے الجھا دیتے ہیں اور پھر تماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔ چینل انتظامیہ کی بھی ہدائت ہوتی ہے کہ مت روکیں۔ چنانچہ بھینسوں، مرغوں، وغیرہ کی لڑائی پسند کرنے والے تو دیکھتے رہتے ہیں اور دوسرے کسی اور چینل کی طرف چلے جاتے ہیں۔
اکثر میزبانوں کو بات کاٹنا بھی نہیں آتا۔ فون پر مہمان اپنی آواز کے سحر میں بولتا چلا جا رہا ہے اور دم نہیں لیتا ۔ سوال پوچھنے کے لیئے میزبان بھی بولنے لگتا ہے۔ آپس میں تو وہ شائد ایک دوسرے کی بات سن سکتے ہوں لیکن دیکھنے والوں کو صرف شور سنائی دیتا ہے۔ آسان سی بات ہے کہ مہمان کو جب تک وہ خاموش نہ ہو مخاطب کرتے رہیں، جیسے "خاں صاحب،" "چودھری صاحب،"شاہ صاحب،" وغیرہ۔ جب وہ چپ ہو جائے تو پھر جو پوچھنا ہے پوچھیں۔ بیک وقت بولنے سے دونوں کی آوازیں ایک دوسرے کو کاٹتی ہیں۔
بہت سے اینکروں کو مہمان کو مخاطب کرنا بھی نہیں آتا۔ اگر کسی کا نام سید اقبال حسین شاہ ہے تو ہر دفعہ اسے پورے نام سے پکاریں گے۔ حالانکہ اسے اقبال صاحب یا شاہ صاحب کہنا چاہیئے، جیسا کہ عام بول چال میں کرتے ہیں۔ پتہ نہیں یہ بیماری کہان سے آئی۔ کراچی کے اینکروں میں سب سے زیادہ ہے۔
اکثر میزبان اتنے بے صبرے ہوتے ہیں کہ اگر مہمان روانی سے اور تیزی سے بات نہ کر سکے تو فورا کاٹ دیتے ہیں۔ بعض پس ماندہ علاقوں کے لوگوں کی اردو زیادہ اچھی نہیں ہوتی۔ چنانچہ وہ اٹک اٹک کر بولتے ہیں۔ انھیں بات پوری کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔
ٹاک شو کرنے یا انٹرویو لینے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟ میزبان کی شکل صرف پہلے سوال میں نظر آنی چاہیئے۔ اس کے بعد اس کے سوالوں کے دوران بھی کیمرہ مہمان یا مہمانوں پر ہی رہنا چاہیئے۔ کئی دفعہ مہمان کی زبان کچھ کہہ رہی ہوتی ہے اور بدن بولی کچھ اور۔ یہی موقع ہوتا ہے سچ معلوم کرنے کا۔ لیکن ہمارے میزبانوں کا اصرار ہوتا ہے کہ جب وہ بولیں تو کیمرہ صرف ان کا چہرہ دکھائے۔ ان کی بلا سے کہ ناظرین کو ان کے میکپ زدہ رخ روشن کی بجائے مہمان کے تاثرات میں دلچسپی ہے۔
اگر اینکروں اور انٹرویو لینے والوں کو اپنا مستقبل عزیز ہے اور وہ کمترین ریٹنگ اور عدم مقبولیت کے نتیجہ میں فارغ نہیں ہونا چاہتے تو بدتمیزی چھوڑ دیں، جو صرف گوروں کے ہاں چلتی ہے۔ اپنی تہذیب اور آداب سے آگاہ ہوں اور ان کا پاس کریں۔ انکساری، خّش اخلاقی اور تحمل اپنائیں اور مہمانوں کا احترام کیا کریں۔ اخلاقی اور تہذیبی قدروں کو پامال نہ کریں۔ یہ نہ ہو کہ انھیں لگے کہ وہ ٹیلی ویژن پر ان کا کیریئر اتنی ہی دیر نظر آئے، جتنی دیر بلبلہ پانی کی سطح پر اور لہر سمندر کے ساحل پر رہتی ہے۔

0 Comments:

Post a Comment

<< Home