Friday, July 27, 2012

فرمایا شیخ رشید احمد نے

شیخ رشید احمد حکومت میں نہیں، نہ کسی بڑی پارٹی کے لیڈر ہیں لیکن وہ کسی بھی سیاست کار سے زیادہ ٹیلی ویژن چینلوں پر نظر آتے ہیں۔ (بلکہ آج کل تو شو میں بلا شرکت غیرے آتے ہیں۔) ان کی باتوں کے حوالے دیئے جاتے ہیں۔ بعض تو زبان کا حصہ بن گئی ہیں، جیسے "ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی۔" کوئی چینل اور کوئی میزبان ایسا نہیں جو ان کا انٹرویو کرنے سے انکار کرے کیونکہ اس سے اونچی ریٹنگ ملتی ہے۔
شیخ صاحب کے بارے میں ہر ایک کی اپنی اپنی رائے ہے۔ کوئی انھیں سخت ناپسند کرتا ہے اور کوئی بہت زیادہ پسند کرتا ہے۔ لیکن اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ ان کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہوتا ہے۔ وہ عوام کی زبان میں ان کی سوچ اور ان کے مسائل کا ذکر بھرپور انداز میں کرتے ہیں۔ چونکہ وہ انگریزی میں سوچ کر بات کا ترجمہ نہیں کرتے (کیونکہ ان کی انگریزی، ان کے اپنے مطابق، واجبی سی ہے) اس لیئے ان میں روانی بھی ہوتی ہے اور شدت جذبات بھی۔
دوسرے، وہ نہائت باخبر ہیں۔ انھیں اکثر پتہ ہوتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ ان کے "باخبر ذرائع" بڑے لوگوں کے چھوٹے لوگ (چوکیدار، چپڑاسی، ویٹر، آپریٹر، وغیرہ) ہوتے ہیں، جنھیں وہ خوش رکھتے ہیں۔ بہت دفعہ ان کی پیش گوئیاں صحیح نکلیں۔ اب ایک کا انتظار ہے۔ چند ماہ پہلے انھوں نے اعلان کیا کہ وہ 13 اگست کو لیاقت باغ، راولپنڈی، میں ایک بڑا جلسہ کریں گے اور اس میں اپنے پروگرام کا اعلان کریں گے۔ لگتا ہے کہ انھیں یقین تھا کہ یوم آزادی سے پہلے ملک میں سیاسی تبدیلی آ چکی ہوگی۔ اس وقت اس کے آثار نہیں دکھائی دیتے تھے لیکن اب بہت قریب نظر آ رہی ہے۔
شیخ صاحب کے ایک مداح نے ان کے کچھ اقوال جمع کیئے ہیں۔ ان میں ان کا عوامی انداز نظر آتا ہے اور عوامی دانش بھی۔ آپ کو ان کی ذات ناپسند ہو تو بھی ان کے اقوال کا لطف لے سکتے ہیں۔ اگر کبھی شیخ صاحب نے اپنے اقوال لکھ ڈالے تو ان کی کتاب بھی ان کے انٹرویو کی طرح بہت مقبول ہوگی۔
ایک نقطہ محرم کو مجرم بنا دیتا ہے۔
آصف علی زرداری کو اقتدار جہیز میں ملا۔
برلا جی کے مندر کا پرشاد بٹ رہا ہے۔
جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی
حکمرانوں کی اگلی نسل ان سے کہیں زیادہ کرپٹ ہے۔
صرف دو افراد 18 گھنٹے کام کرتے ہیں، ایک رحمان ملک اور دوسرے وینا ملک
کوئی ایک سیاسی لیڈر بھی ایسا نہیں جو فوج کی نرسری میں جواں نہ ہوا ہو۔
گڑھی خدا بخش میں چار جوان لاشیں دفن ہیں لیکن اقتدار کسی اور کو مل گیا۔
یوسف رضا گیلانی، مال پانی
مال بنائو، ڈنگ ٹپائو۔
میں نے زندگی میں پہلی بار ہومیوپیتھک جرنیل دیکھے ہیں۔
فوج ستو پی کر سو رہی ہے۔ اب تو لگتا ہے ناشتہ بھی گوند کتیرہ کا کرتی ہے۔
ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔
ڈریں اس وقت سے جب جھنڈے کے نیچے ڈنڈہ بھی ہوگا۔
لوگوں کے پاس دو ہی کام ہیں: ٹیلی ویژن دیکھنا یا ایس ایم ایس کرنا
آصف زرداری نے وزارتوں کی لوٹ سیل لگا دی ہے۔
سیاست میں بھی لائین اور لینگتھ دیکھ کر کھیلنا چاہیئے۔
میرا جی چاہتا ہے کہ سپریم کورٹ کی عمارت پر بنے ترازو پر ٹکریں ماروں کیونکہ وہ اپنے فیصلوں پر عمل نہیں کرا سکتی۔  
وزیر اعظم نے سپریم کورٹ میں کہا کہ اس کے فیصلہ کے باوجود خط نہیں لکھیں گے اور اس کے بعد پالیمنٹ میں اس طرح داخل ہوئے گویا قسطنطنیہ فتح کر لیا ہو۔
ہم عوام وہ گلے سڑے پھل ہیں جنھیں ٹوکری میں سے کوئی نہیں اٹھاتا۔
الیکشن میں عوام کو اس طرح استعمال کیا جاتا ہے جیسے دلھن ایک رات کی ہوتی ہے۔
میں عقلمندوں سے مخاطب ہوتا ہوں، بے وقوفوں سے نہیں۔
ہم کرائے کے لوگ ہیں۔ اپنا محل وقوع ہیچتے ہیں۔
پیادوں سے بادشاہ نہیں مرا کرتے۔
کھسروں کے گھر اولاد ہو تو یہی کچھ ہوتا ہے۔
عزت حکمرانوں کو راس نہیں آ رہی۔
زرداری صاحب نہ کھیلیں گے، نہ کھیلنے دیں گے۔
جمہوریت کے نام پر ڈاکو ماسک پہن کر لوٹ مار کر رہے ہیں۔
سیدھی انگلیوں سے نہ نکلے لیکن گھی نے نکلنا تو ہے۔
میں تو 25 یا زیادہ سے زیادہ 30 بور کا کارتوس ہوں۔
اگر ٹیلی ویژن چینلوں پر نرگسی مجرہ کرنا ہے تو میں سب سے اچھا کر رہا ہوں۔
میں نے نواز شریف سے کہا کہ باہر نکلیں اور عوام کو باہر نکالیں۔ اگر صرف ٹیلی ویژن پر پروگرام کرنے ہیں تو وہ مجھ سے بہتر کوئی نہیں کر رہا۔
عوام نے اگر حمام نہیں بننا تو گلی کوچوں میں نکلیں۔
اپنا عقیدہ چھوڑو مت، دوسروں کا عقیدہ چھیڑو مت۔
"رینٹل" سن کر ہی میں مینٹل ہو جاتا ہوں۔
ہمارے لیڈر ہمیں ڈانٹتے ہیں اور اپنی اولاد میں بانٹتے ہیں۔
اگر یہی حالات رہے تو سکندر اعظم بھی انھیں ٹھیک نہیں کر سکے گا۔
حکمران کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ ماں ہے۔ اگر یہ ماں ہے تو وہ 18 کروڑ باپ کدھر جائیں جنھوں نے اپنے نمائندوں کو پارلیمنٹ میں بھیجا؟
اگر کوئی 100 افراد اور 25 بچے اور غیرقانونی ڈنڈہ میرے حوالہ کر دے تو میں ملک کو تمام بیرونی قرضوں سے آزاد کر دوں گا۔

There is always a case behind a face.
Gang of five families (of five major parties) controls politics.
Every day is not Sunday.
Accident happens when driver drives foolishly.
Express train never waits the passenger (sic).
Now the country needs revolution۔ 


0 Comments:

Post a Comment

<< Home