Thursday, July 26, 2012

یہ سب کون کروا رہا ہے اور کیوں؟

صحافیوں کو سکھایا جاتا ہے کہ جامع خبر میں دوسری تفصیل کے ساتھ "ک" سے شروع ہونے والے پانچ سوالوں کا جواب ضروری ہے: کیا، کیسے، کب، کون اور کیوں۔
اگر کسی صحافی سے اس کا ادارہ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے بارے میں جامع رپورٹ دینے کے لیئے کہے تو وہ آسانی سے اور تفصیل سے لکھ دے گا کہ کیا ہو رہا ہے، کیسے ہو رہا ہے اور کب سے ہو رہا ہے۔ لیکن جب ان سوالوں پر پہنچے گا کہ کون کروا رہا ہے اور کیوں تو اس کی انگلیاں کمپوٹر کے کی بورڈ سے ہٹ جائین گی اور مائیکرو فون کے سامنے اس کی زبان گنگ ہو جائے گی۔ آپ بے شک کہتے رہیں کہ"بول کہ لب آزاد ہیں تیرے" لیکن جس طرح میڈیا مالکوں اور صحافیوں پر ان دنوں ڈالروں کی بارش ہو رہی ہے اس کے پیش نظر الفاظ نہ اس کے کمپیوٹر کی سکرین پر نظر آئیں گے اور نہ ہونٹوں سے نکلیں گے۔
مجھے اور آپ کو تو نہ تو ڈالروں کا لالچ ہے اور نہ امریکہ کا خوف تو پھر کیوں نہ "کون" اور "کیوں" کے جواب تلاش کریں؟
کہانی شروع ہوتی ہے جولائی 2008 سے، جب امریکی جرنیل اور جاسوس افغانستان میں بار بار ناکامیوں کے بعد خود کو ذمہ دار ٹھہرانے کی بجائے صدر پرویز مشرف کو قربانی کا بکرہ بنانے میں آخرکار کامیاب ہو گئے۔ 2001 میں حملہ کے بعد وہ جلد ہی جان گئے کہ افغانستان پر قبضہ برقرار رکھنا لوہے کے چنے چبانا ہوگا۔ کم ظرف ہونے کی بنا پر وہ اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کی بجائے صدر مشرف کو الزام دینے لگے کہ وہ پوری طرح تعاون نہیں کر رہے۔
امریکی صدر جارج بش میں بہت سی برائیاں سہی لیکن ایک بڑی خوبی تھی کہ وہ یاروں کا یار تھا۔ وہ وزیروں، جرنیلوں اور جاسوسوں کو منع کرتا رہا کہ احسان فراموشی نہ کریں۔ اسے ہمیشہ یاد رہتا کہ مشکل ترین وقت میں صدر مشرف نے ساتھ دے کر امریکہ پر بہت بڑا احسان کیا تھا۔ چنانچہ جب پہلی بار کابینہ کی میٹنگ میں اسے بتایا گیا کہ پاکستان افغانستان پر حملہ میں رکاوٹ نہیں بنے گا اور جہاں تک ہو سکے گا خود کو نقصان پہنچائے بغیر مدد بھی کرے گا تو امریکی مصنف باب وڈورڈ کے الفاظ میں اس نے اپنی کابینہ سے کہا، "ہمیں اب صدر پاکستان کا خاص خیال رکھنا ہوگا کیونکہ انھوں نے سخت عوامی مخالفت کے باوجود ساستھ دے کر بڑا رسک لیا ہے۔"
حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ صدر مشرف نے افغانستان سے متعلق مطالبات تو مان لیئے لیکن پاکستان سے جو دو مطالبات کیئے گئے وہ نہ مانے: اول، امریکی فوج کو زمینی راستہ دینے سے انکار کر دیا۔ دوم، امریکی جہازوں کو ملک کی ساری فضا میں اڑنے کی آزادی کی بجائے صرف محدود ہوائی رستہ دیا اور ہنگامی صورت میں جیکب آباد اور شمشی ہوائی اڈوں پر اترنے کی اجازت دی۔ (اصل نام شمسی نہیں شمشی ہے۔ یہ ایک  گھاس کا نام ہے، جو اس علاقہ میں بکثرت پائی جاتی ہے۔)
امریکی جرنیل اور جاسوس بار بار کہتے رہے کہ ہم مرضی کا آرمی چیف لے آئین گے جو ہر طرح سے تعاون کرے گا لیکن بش ہر بار انکار کر دیتا۔ اگر وہ جولائی میں بھی کمزوری نہ دکھاتا تو نومبر میں نیا صدر آ جاتا اور پی پارٹی (پی۔ پی۔پی۔پی۔) کو صدر مشرف کے زیر سایہ کام کرنا پڑتا اور ق لیگ بھی شروع سے ہی اس کی شریک حکومت ہوتی۔
جونہی بش کی اجازت ملی، آصف علی زرداری سے کہا گیا کہ صدر مشرف کو ہٹانے کے لیئے مواخذہ کی تحریک لے آئے۔ وہ زرداری جو بار بار کہہ چکا تھا کہ مشرف کو صدر مان کر چلنے پر اسے کوئی اعتراض نہیں اچانک آنکھین دکھانے لگا۔ مواخذہ کا کوئی جواز نہ تھا کیونکہ اکتوبر 1999 کے بعد کے تمام اقدام کی پارلیمنٹ اور 2007 کی ایمرجنسی کی سپریم کورٹ توثیق کر چکا تھا۔ اس کے بعد کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا گیا جس پر مواخذہ ہو سکتا لیکن اقتدار کی ہوس میں سب کچھ ہو سکتا ہے۔ نواز شریف بھی ساتھ دینے کو تیار ہو گئے۔ مشرف پھر بھی ڈٹ جاتے لیکن جب پتہ چلا کہ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے ہیں تو جانا ہی پڑا۔
امریکیوں نے 2008 میں برسر اقتدار لائے گئے لیڈروں سے کئی کام لینے تھے:
اول، عوامی نیشنل پارٹی کی مدد سے صوبہ خیبر اور وفاقی قبائلی علاقہ (فاٹا) پر مشتمل نیا ملک ("پختونخوا") بنانا تھا۔ بعد میں اس میں افغانستان کے پشتو بولنے والے علاقے بھی شامل کرا دیئے جاتے۔ (انگریزوں کے کہنے پر غفار خاں نے 1947 میں یہی مطالب کیا تھا۔ نئے ملک کا نام "پختونستان" رکھا جانا تھا۔ اسی کے لیئے صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کرایا گیا۔ آزادی کے بعد بھی "پختونستان" کی تحریک چلائی تو مقدمہ درج ہو گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی سیاسی لیڈر کو عدالت کے ذریعہ غداری کے جرم میں قید کی سزا دلائی گئئِ۔)
اسفندیار 2007 میں الیکشن سے پہلے تین ہفتہ کے نہائت خفیہ دورہ پر واشنگٹن گئے اور سب کچھ مان کر آ گئے۔ چنانچہ ان کی عوامی نیشنل پارٹی کو حکومت دلائی گئی اور اس نے دل و جان سے تعاون کیا۔ صوبہ کا نام "پختون خوا" رکھنے کا مطالبہ تو 2003 سے ہی شروع کر دیا گیا تھا۔ (اس سے پہلے کیوں کبھی خیال نہ آیا؟) صوبائی حکومت بناتے ہی سندھ دریا کے پار اپنی طرف بڑے بڑے ہورڈنگ لگا دیئے گئے: "آپ پختونخوا میں داخل ہو رہے ہیں۔"
دوسری طرف امریکہ کے تیار کیئے ہوئے مقامی طالبان (تحریک طالبان پاکستان) کو کھلی چھٹی دے دی گئی کہ جہاں چاہیں بلا روک ٹوک دہشت گردی کریں۔ اگر فوج انہیں پکڑتی تو صوبائی حکومت نہ انہیں اپنی تحویل میں لیتی اور نہ ان کے خلاف کوئی کاروائی کرتی۔ عوامی نیشنل پارٹی کی کھلم کھلا ملک دشمنی کے باوجود فوج نے خود ہی پختونخوا کے قیام کا منصوبہ ناکام بنا دیا۔ پارٹی صرف صوبہ کا نام تبدیل کرا سکی، وہ بھی نواز شریف کی مہربانی سے۔
دوم، امریکہ کا اگلا نشانہ بلوچستان تھا، جسے وہ عرصہ سے الگ کرانا چاہتا تھا۔ وہاں تمام سیاسی پارٹیوں کو حکومت میں شامل کرا دیا گیا تاکہ سب کے منہ بند رہیں اور کوئی تخریبی کاروائیوں کی مخالفت کرنے والا نہ ہو۔ سو سے زیادہ قبیلوں والے صوبہ میں سے صرف بگٹی، مری اور مینگل کے بل بوتے پر علیحدگی کی تحریک چلائی گئی، جس نے تخریبی کاروائیاں تو بہت کیں لیکن عملی طور پر کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکی۔
سوم، امریکہ کا تیسرا بڑا مقصد ملک کو ہر طریقہ سے، خاص طور پر معاشی طور پر، تباہ کرانا تھا تاکہ وہ اتنا کمزور ہو جائے کہ اس کی فوج کو نہائت کمزور کر دیا جائے، ایٹمی طاقت ختم کر دی جائے اور اسے ہندوستان کا طفیلی ملک بھی بنا دیا جائے۔ اس مقصد کے لیئے نہ صرف زرداری بلکہ وفاق اور صوبوں میں برسراقتدار تمام پارٹیوں کے لیڈر بڑی تندہی سے کام کر رہے ہیں۔ امریکہ نے انہیں تسلی دے رکھی ہے کہ یوں تو وہ کرپشن کے خلاف ہے لیکن آپ لوگوں پر کوئی نکتہ چینی نہیں کی جائے گی۔ نہ ہی احتساب کا مطالبہ کیا جائے گا، عوام جو چاہے کہتے رہیں۔ نواز شریف کو طفل تسلی دی گئی کہ زرداری کی حکومت کو نہ گرنے دو تو اگلی باری مل جائے گی۔ فوج اور سپریم کورٹ کو بھی اب تک حکومت کو گرانے نہ دیا گیا۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں کو بھی دھن اور دھونس سے اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کیا گیا۔
چار سال سے زیادہ کھل کھیلنے کے باوجود پی پارٹی (پی۔ پی۔پی۔پی۔) کی ہوس ختم نہیں ہوئی۔ وہ پانچ سالہ میعاد کے آخری دن تک مہلت چاہتی ہے۔ دریں اثنا، اس کی ساکھ بالکل ختم ہو چکی ہے، لیکن پھر بھی امریکی چاہتے ہیں کہ اسے ایک باری اور مل جائے۔ تاہم اب تبدیلی کے لیئے رستہ صاف ہے، بشرطیکہ متعلق اہم افراد کے گھٹنے ایک بار پھر جواب نہ دے جائیِں۔
جب ہر لحاظ سے مکمل تبدیلی آ جائے گی تو کی بورڈ پر رکی ہوئی انگلیاں چلنے لگیں گی اور بند زبانیں بھی کھل جائیں گی۔ ہمارا میڈیا کلمہ حق کہنے کا جہاد تو کرتا ہے لیکن صرف اسی وقت جب جابر سلطان جا چکا ہو۔ 

0 Comments:

Post a Comment

<< Home