Friday, August 17, 2012

بجلی کا بحران کیوں ہے اور کیسے ختم ہو سکتا ہے

پہلے صوبہ پنجاب سے اور اب صوبہ خیبر سے مطالبہ ہوا ہے کہ بجلی کی تقسیم صوبوں کو دے دی جائے، گویا صوبے زیادہ اہل اور دیانتدار ہیں۔ اول تو مال حرام کھانے والے "راجہ رینٹل" جیسے وزیر مانیں گے ہی نہیں۔ اگر کسی نہ کسی طرح مطالبہ مان بھی لیا گیا تو ہم موجودہ بحران کو "بجلی کا روشن دور" کہا کریں گے۔
ہندوستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہاں بجلی کی تقسیم صوبوں کے پاس ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ وزیر اعلا کبھی کسی طبقہ کو بجلی مفت دے دیتے ہیں، کبھی کسی کے بقایا جات معاف کر دیتے ہیں اور کبھی کسی سے وصولی روک دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے صوبوں کے بجلی بورڈ خسارہ میں چل رہے ہیں اور کوئی سرمایہ کار مرکزی حکومت کی گارنٹی کے بغیر ان کے لیئے بجلی گھر لگانے کو تیار نہیں۔ حال ہی میں صوبوں کی ایک دوسرے کی بجلی چوری کرنے کی بنا پر سسٹم ہی بیٹھ گیا، جس سے 600 ملین لوگ بجلی سے محروم ہو گئے۔ یہ تاریخ کا سب سے بڑا بلیک آئوٹ تھا۔ چند سال پہلے بجلی کے مرکزی وزیر نے کہا تھا، "میری زندگی میں تو لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہوگی۔"
ہمیں بھی صوبائی کنٹرول کا تجربہ ہے۔ چند سال پہلے بلوچستان میں باغات کے لیئے بجلی مفت کر دی گئی۔ مالکان دن رات ٹیوب ویل چلاتے، چاہے پانی ضرورت پوری ہونے کے بعد ریت میں جاتا رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ زیرزمین پانی کی سطح اتنی گر گئی کہ پانی نکالنا ممکن نہ رہا اور باغات سوکھ کر ختم ہو گئے۔
بجلی کی تقسیم صوبوں کے حوالہ کرنے کا مطالبہ اسی قسم کی لوٹ مار کرنے کا منصوبہ ہے، جیسی چار سالوں سے مرکز میں ہو رہی ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے سربراہ میرٹ کی بجائے ذاتی مصلحتوں کے تحت مقرر ہونگے۔ پارٹی لیڈروں اور ان کے چہیتوں کو بجلی چوری کی کھلی چھٹی ہوگی۔ ان سے وصولی بھی نہیں ہوگی اور نہ نادہندگی پر بجلی کٹے گی۔ بجلی پیدا کرنے والوں سے بھاری رشوت لے کر مہنگا ریٹ دیا جائے گا۔ سیاسی نقصان کے ڈر سے بجلی کا ریٹ نہیں بڑھایا جائے گا۔ الیکشن کے موقع پر کاشت کاروں وغیرہ کے بل معاف کر دیئے جائیں گے۔ سندھ کی مثال لیں۔ کیا وہاں کی صوبائی حکومت اس قابل ہے کہ کراچی، حیدراباد، سکھر، وغیرہ، میں بھاری بجلی چوری ختم کر سکے؟ کیا صوبہ خیبر کی حکومت فاٹآ سے بل وصول کر سکتی ہے؟ اسی طرح کیا بلوچستان میں وصولی ہو سکے گی؟ جب تقسیم کار کمپنیاں بھاری خسارہ کے بوجھ تلے دب جائیں گی تو صوبے مرکز سے امداد مانگنے لگیں گے۔
ہماری داستان الم بے نظیر کے پہلے دور سے شروع ہوتی ہے جب بھاری رشوت کے عوض نئے نجی بجلی گھر لگنے لگے۔ اس وقت واپڈا کے ایک افسر نے کہا، "جن شرطوں پر اجازت دی گئی ہے اس کے بعد اگر دس روپے فی یونٹ پر بجلی ملتی رہی تو بھی سمجھیں کہ سستی ہے۔" ان دنوں بجلی بیس بائیس روپے یونٹ پر حکومت کو مل رہی ہے۔ پھر بھی بار بار ریٹ بڑھانے کے باوجود تقریبا آدھہ بوجھ اسے اٹھانا پڑ رہا ہے۔
نجی بجلی گھروں کے لیئے بڑی آسانیاں پیدا کی گئیں۔ ٘مثلا، معاہدہ میں لکھا گیا کہ بجلی گھر فرنس آئل کے لیئے صرف تین ہزار روپے فی ٹن اور باقی حکومت دے گی۔ آج کل تیل کا ریٹ 70 ہزار روپے کے قریب ہے۔ حکومت پر قرضہ بے تہاشہ کیوں نہ چڑھے؟ پھر واپڈا پر پابندی لگا دی گئی کہ اپنے بجلی گھر نہ لگائے۔ ساتھ ہی کسی بھی ڈیم کے لئے قابل عمل ہونے کی رپورٹ بنانے کا حکم نہ دیا گیا۔
کالاباغ ڈیم سیاست کاروں کی ملک دشمنی کی بہت بڑی مثال ہے۔ صدر ضیاء الحق 1985 میں تعمیر کا حکم دینے والے تھے کہ جنرل فضل حق نے، جسے سیاست کا شوق چرایا، سستی شہرت کے لئے اس کی مخالفت کر دی۔ معاملہ محمد خاں جونیجو پر چھوڑ دیا گیا۔ غیرمنتخب وزیراعظم ہوتے ہوئے وہ کرسی بچانے ہی میں لگے رہے۔ بے نظیر کو ویسے ہی ہر اس منصوبہ سے نفرت تھی، جس سے فائدہ پنجاب کو ہو۔ (لاہور ہوائی اڈہ کے ٹرمینل اور موٹروے کی تعمیر روک دی گئی۔) پھر کالاباغ بننے سے نجی بجلی گھر کیسے مہنگی بجلی بیچ سکتے اور حکمرانوں کو بھاری رشوت دیتے؟ نواز شریف نے بھی دو تہائی اکثریت کے باوجود کالا باغ نہیں بنایا۔ وجہ وہی رشوت تھی، نہ کہ دوسرے صوبوں کی مخالفت۔
پرویز مشرف نے آتے ہی تعمیر شروع کرانی چاہی لیکن سندھ میں دریائوں کے کچہ سے فائدہ اٹھانے والے وڈیروں، پنجاب سے نفرت کی سیاست کرنے والے انتہا پسنوں، میڈیا میں ہندوستانی ایجنٹوں، اور نجی بجلی گھروں کے مالکوں نے مل کر اتنا ہنگامہ کیا کہ وہ رک گیا۔ پھر اس نے سندھ کے لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیئے کئی بڑے منصوبے شروع کرائے۔ بلوچستان کے لیئے 400 کلومیٹر لمبی کچھی نہر تعمیر کرنے کا حکم دیا، جس سے تقریبا تین لاکھ ہیکٹر اراضی سیراب ہوگی۔ پھر حالات بہتر ہونے پر 2006 کے شروع میں واپڈا نے غیرملکی ٹھیکیداروں کو اطلاع دی کہ ستمبر میں کالاباغ ڈیم کے لیئے ٹینڈر طلب کیئے جائیں گے۔
ہماری بدقسمتی کہ سیاست ایک بار پھر رکاوٹ بن گئی۔ گجرات کے چودھریوں نے پرویز مشرف سے کہا کہ اگلے سال الیکشن میں ان کی پارٹی کو نقصان ہو سکتا ہے۔ اس لیئے کالاباغ بند کی تعمیر الیکشن کے بعد تک ملتوی کر دی جائے۔ اگر مشرف کمزوری نہ دکھاتا تو آج ڈیم بن چکا ہوتا اور چودھری بھی اس کا کریڈٹ لے رہے ہوتے۔ بہرحال، آج لوڈشیڈنگ نہ ہو رہی ہوتی۔
زرداری حکومت کی نیت پہلے دن سے ہی خراب تھی۔ راجہ پرویز اشرف نے مئی 2008 میں کہا کہ واپڈا کے بند بجلی گھروں کو چالو کرنے میں سال ڈیڑھ لگ جائے گا۔اتنی دیر انتظار نہیں کیا جا سکتا۔ بس کرایہ کے (رینٹل) بجلی گھر ہمارے لیئے امرت دھارہ (ہر بیماری کا علاج) ہیں۔ راجہ نے بار بار لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے وعدے کیِئے جو محبوب کے وعدے ثابت ہوئے۔
کالاباغ ڈیم نہ بنانے کے لیئے عذر لنگ کی بیساکھی تین صوبوں کی اسمبلیوں کی مخالفانہ قراردادیں ہیں۔ جب پارلی٘منٹ کی قراردادیں حکومت کے لیئے ردی کاغذ ہیں (جیسے ڈرون حملوں کے بارے میں) تو صوبائی قراردادوں کی کیا وقعت ہے؟ وہ بھی پتہ نہیں منظوری کے وقت کتنے ارکان حاضر تھے۔ پھر کیا کسی نے وارسک، راول، منگلا، تربیلا ڈیم، وغیرہ کے لیئے صوبوں سے یا سیاسی جماعتوں سے پوچھا؟ اب بھی دیامر بھاشہ کے لیئے کسی صوبے سے منظوری نہیں لی گئی، حالانکہ یہ بھی کالاباغ کی طرح سندھ دریا پر ہی بنے گا اور اس میں بھی اسی دریا کا پانی ذخیرہ کیا جائے گا۔ دل حرامی تے بہانے ڈھیر۔ (دل نہ مانے تو بے شمار بہانے بنا لیئے جاتے ہیں۔)
نجات کا رستہ بحران سے ہمیشہ کے لیئے کیسے نکلا جا سکتا ہے؟ طریقہ کوئی مشکل نہیں۔ اس وقت بجلی کی تقسیم کے لیئے نو نیم خود مختار کمپنیاں ہیں۔ انھیں پبلک لیمٹڈ کمپنیاں بنا دیا جائے۔ سب غیرمنافع بخش ہوں، یعنی منافع حصہ داروں میں تقسیم نہ کریں۔ اس طرح جو کمائیں گی بہتری کے لیئے استعمال کریں گی۔ حصہ دار بھی منافع کے خاہشمند عام سرمایہ دار نہ ہوں بلکہ صرف کمپنی سے بجلی کا کنیکشن لینے والے ہوں۔ ہر ایک صرف ایک حصہ خریدے تاکہ امیر زیادہ حصص خرید کر کمپنی پر غلبہ حاصل نہ کر سکیں۔
کمپنی کی صدارت کے لیئے وفاقی پبلک سروس کمشن اہل امیدواروں کا انتخاب کر کے ہر کمپنی کو بھیج دے۔ ان کے کوائف بجلی کے بل کے ساتھ تمام حصہ داروں کو دیئے جائیں۔ ساتھ بیلٹ پیپر ہو۔ حصہ دار اس پر اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دے دیں۔ سب ووٹ ڈاک سے کمپنی کے صدر دفتر پہنچ جائیں۔ جسے سب سے زیادہ ووٹ ملیں وہ کمپنی کا سربراہ بن جائَے۔
کمپنی کے صدر کی دو بڑی ذمہ داریاں ہونگی۔ ایک طرف وہ بجلی پیدا کرنے والوں سے کم سے کم قیمت پر اور اچھی سے اچھی شرطوں پر بجلی خریدے۔ جو سرمایہ کار اسی قیمت پر یا اس سے کم پر بجلی دینے کو تیار ہو، اس سے خریداری کا معاہدہ کر لیا جائے۔ بجلی چاہے وہ گیس سے، پانی سے، ہوا سے یا کوئلہ سے بنائے۔ بجلی کی فروخت کی ضمانت پر سرمایہ کار بینکوں سے قرضہ لے سکے گا۔ موجودہ بجلی گھروں کو بھی تقسیم کار کمپنیون سے الگ الگ معاہدے کرنے ہوں گے۔ یوں مرکزی حکومت کی ذمہ داریاں ختم ہو جائیں گی۔ (یعنی رشوت دے کر کوئی نیا تھرمل یا رینٹل نجلی گھر نہیں لگ سکے گا۔)
دوسری طرف، کمپنی کا صدر بجلی کی تقسیم کا نظام بہتر بنائے گا، واجبات سب سے بروقت وصول کرے گا، چاہے امیر ہو یا وزیر، صعنت کار ہو یا سیاست کار۔ کیونکہ مرکزی یا صوبائی حکومت کے ماتحت نہیں ہوگا۔ اس لیئے بجلی چوری پر موثر کاروائی کرے گا۔ یہ سب کچھ اگر نہیں کرے گا تو اس کی اپنی نوکری خطرہ میں پڑ جائے گی کیونکہ ہر سہ ماہی کے آخر میں کارکردگی رپورٹ بجلی کی بل کے ساتھ حصہ داروں کو بھیجنی ہوگی اور ان سے ہر سال اعتماد کا ووٹ بھی لینا ہوگا۔ غلط کام کرے گا یا ناہلی دکھائے گا تو فارغ ہو جائے گا۔ کسی کی سفارش کام نہیں آئے گی۔
فائدے مجوزہ نظام قائم ہونے کے بعد بے شمار فائدے ہوں گے:
·       بجلی کی تقسیم کی نج کاری ہوجائے گی، جس کا مطالبہ عرصہ سے ہو رہا ہے لیکن یہ کراچی الیکٹرک کمپنی جیسی نج کاری نہیں ہوگی، جس کے مالک عوام کی پروا کیئے بغیر صرف اپنی جیبیں بھرنے میں لگے ہیں۔
·       بجلی استعمال کرنے والے ہی کمپنی کے حصہ دار ہوں۔ اس لیئے انتظامیہ ان کے سامنے جواب دہ ہوگی۔
·       کمپنی کسی کو منافع نہیں دے گی۔ اس طرح بجلی کا ریٹ کم از کم ہوگا۔
·       بجلی میں سیاست کا دخل ختم ہو جائے گا۔
·       بجلی کا ریٹ کم سے کم ہو جائے گا۔
·       صوبوں اور مرکز کی رسہ کشی اور مداخلت ختم ہو جائے گی۔
·       اور لوڈ شیڈنگ ماضی کی ایک تلخ یاد بن کر رہ جائے گی۔

0 Comments:

Post a Comment

<< Home