Sunday, September 02, 2012

ناطقہ سر بگریباں ہے، اسے کیا کہیئے؟

جج، وکیل، صحافی، تجزیہ کار، سب مل کر ارسلان افتخار کے سادہ سے کیس کو مہینوں میں بھی سمجھ نہیں پائے، ہمیں کیا سمجھائیں گے، اور کسی نتیجہ پر کیا پہنچیں گے۔ آئیں، اس "کیس" کے بارے میں سوالوں کے جواب ہم خود ہی تلاش کریں۔
حقائق کیا ہیں؟ جائداد کی خریدوفروخت سے ارب پتی بننے والے ملک ریاض کے داماد سلمان نے، جو برتانوی شہری ہے، ارسلان کو انگلستان میں پیسے دیئے۔ اس نے اپنے کریڈٹ کارڈ سے ارسلان اور اس کے کنبہ کے افراد کے برتانیہ کے دوروں کے اخراجات بھی ادا کیئے۔ بقول ملک ریاض، ارسلان نے تین کروڑ سے زیادہ روپے یہ کہہ کر اینٹھ لیئَے کہ سپریم کورٹ میں اس کے خلاف زیرسماعت مقدموں میں فیصلے اس کے حق میں کرا دیئے جائیں گے۔ لیکن کوئی فیصلہ اس کے حق میں نہ ہوا۔
جرم کیا ہے؟ اگر کوئی برتانوی شہری کسی غیرملکی کو اپنی مرضی سے پیسے دے تو یہ کوئی جرم نہیں۔ اگر وہ شہری الزام لگائے کہ اسے بلیک میل کیا گیا ہے یا جبری اینٹھے گئے ہیں تو اسے مقدمہ درج کرانا ہوگا اور عدالت میں دعوی ثابت کرنا ہوگا۔ سلمان نے نہ کوئی الزام لگایا، نہ مقدمہ درج کرایا۔ بلکہ اس نے تو اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہا۔
وقوعہ کہاں ہوا؟ برتانیہ میں۔ پاکستان میں کہیں بھی کوئی لین دین نہیں ہوا۔
ملک ریاض کا کیا رول ہے؟ اس نے کچھ صحافیوں کے ذریعہ الزام لگایا کہ ارسلان  نے بلیک میل کر کے یا دھوکہ دے کر پیسے اینٹھے۔ بعد میں اس نے نیوز کانفرنس میں اور دنیا نیوز پر انٹرویو میں الزامات دہرائے۔ اس نے نہ خود پیسے دینے کا دعوی کیا، نہ کوئی مقدمہ درج کرایا۔ اس نے ارسلان سے پیسوں کی واپسی کا بھی مطالبہ نہیں کیا۔
ارسلان نے کیا کیا؟ کچھ بھی نہیں۔ اس نے نہ ملک ریاض کو قانونی نوٹس دیا کہ الزامات واپس لے، نہ ہتک عزت کا دعوی دائر کیا کہ اس پر جھوٹے الزام لگا کر اسے بدنام کیا گیا ہے۔ نہ اس نے کسی قسم کی اور کوئی کاروائی کی۔
چیف جسٹس نے کیا کیا؟ انھوں نے ایسے "کیس" کا ازخود نوٹس لے لیا، جو نہ کہیں درج ہوا، نہ جس کا مدعی تھا اور نہ مدعاعلیہ، اور نہ جس میں کسی قانون کی خلاف ورزی ہوئی۔ البتہ بھری عدالت میں وہ اپنی پاکی داماں کی حکائت بڑھا کر بیان کرتے رہے۔ وہ کیس بھی خود ہی سننا چاہتے تھے۔ جب کہا گیا کہ انھیں ایسا کیس نہیں سننا چاہیئے، جس میں ان کا اپنا بیٹا ملوث ہو تو انھوں نے کیس دوسرے ججوں کے سپرد کر دیا، جنھوں نے اٹارنی جنرل کو انکوائری کا حکم دے دیا۔ اس میں ملک ریاض کو بھی ملوث کر لیا گیا، حالانکہ اسے کسی نے ملزم قرار نہیں دیا تھا۔ جب اس کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا تو انکوائری کیسی؟ پھر دو افراد کے درمیان لین دین کے نجی معاملہ کی انکوائری نیب کر ہی نہیں سکتی۔ یہ کام عدالتوں کا ہے۔
تفتیش کیوں تبدیل کی گئی؟ ارسلان نے اعتراض کیا کہ اٹارنی جنرل کی ہدائت پر نیب نے جو انکوائری ٹیم بنائی اس کے ارکان پر اسے بھروسہ نہیں کیونکہ ان کے ملک ریاض سے تعلقات ہیں۔ بجائے اس کے کہ نیب سے دوسری ٹیم بنانے کا کہا جاتا، عدالت نے انکوائری وفاقی ٹیکس محتسب شعیب سڈل کے سپرد کر دی، بغیر یہ دیکھے کہ ان کا اب پولیس سے کوئی تعلق نہیں اور وفاقی محتسب، آڈیٹر جنرل، وغیرہ، جیسے آئینی عہدہ پر فائز ہونے کی بنا پر انھیں کوئی عدالت غیرمتعلقہ کام کے لیئے حکم نہیں دے سکتی۔ ویسے بھی انکوائری کے لیئے کمشن بنانے کا قانونی اختیار وفاقی حکومت کو ہے۔
نتیجہ کیا ہوگا؟ شعیب سڈل یا کوئی اور انکوائری کر کے صرف یہ کہے گا کہ ملک ریاض کے الزامات کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ثبوت کیسے ملے گا جب ملک ریاض نے خود پیسے دینے کا دعوی کیا ہی نہیں؟ سلمان سے تفتیش ہو نہیں سکتی اور نہ اس کے بینک کھاتہ کی تفصیلات لی جا سکتی ہیں، کیونکہ وہ برتانوی شہری ہے اور اس کے خلاف برتانوی پولیس ہی تفتیش کر سکتی ہے، وہ بھی مقدمہ درج ہونے کے بعد۔
تو پھر؟ مقدمہ داخل دفتر ہو جائے گا، جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ تھا۔ ارسلان دعوی کرے گا کہ اس کی بے گناہی ثابت ہو گئی ہے۔ البتہ ملک ریاض کو توہین عدالت میں سزا ہو سکتی ہے، اگر اس کا پیسہ اور تعلقات کام نہ آئے۔ اور جو الزامات سینیٹر فیصل رضا عابدی ٹیلی ویژن چینلوں پر شعلہ بیانی سے باپ بیٹے پر لگا رہا ہے، ان کی کوئی انکوائری نہیں ہوگی اور نہ اسے توہین عدالت کے الزام میں بلایا جائے گا۔ اس کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوگی۔ کم از کم فی الحال۔
رہا انصاف، تو بھٹو دور کے پنجاب اسمبلی کے سپیکر، شیخ رفیق احمد، نے اسمبلی کی سیڑھیوں پر ایک عورت کی انصاف کے لیئے فریاد سن کر کہا تھا، "انصاف اگلے جہان ملے گا، اس دنیا میں نہیں۔"

0 Comments:

Post a Comment

<< Home