میڈیا کی عمران خاں کو ٹھبی پہ ٹھبی
پندرہ سال تک میڈیا نے عمران خاں اور ان کی پارٹی کی طرف توجہ نہ کی۔ پھر
لاہور میں جلسہ ہوا، جسے پرانے وقتوں کی زبان میں "ٹھاٹھیں مارتا ہوا
سمندر" کہا جا سکتا تھا۔ میڈِیا جاگا اور واہ واہ کے ڈونگرے برسانے لگا۔
عمران خان کی پارٹی میں اگر کوئی میڈیا شناس تھے تو انھیں سمجھانا چاہیئے تھا
کہ میڈیا کوفہ والوں کی طرح کسی سے وفا نہیں کیا کرتا۔ اگر ہڈی ڈالتے رہیں گے تو
دم ہلاتا رہے گا۔ جونھی کسی اور نے گود لے لیا تو آنکھیں پھیرنے میں دیر نہیں
لگاتا۔ خاں صاحب کو خریدنے کا ہنر نہیں آتا تھا اور نہ وہ اسے اچھا سمجھتے تھے۔
چنانچہ جلد ہی میڈیا کچھ عادت سے مجبور ہو کر اور کچھ خاں صاحب کے مخالفوں کے
اکسانے پر انھیں ٹھبی پہ ٹھبی دینے لگا۔ (کسی اپنے دھیان چلتے شخص کے پائوں کے آگے
اپنا پائوں رکھنے کو ٹھبی دینا کہتے ہے۔ اگر وہ سنبھل نہ سکے تو گر جاتا ہے۔)
خاں صاحب اور ان کے ساتھیوں کو یاد ہونا چاہیئے تھا کہ ماضی قریب میں پرویز
مشرف کے ساتھ کیا ہوا۔ جب ستمبر 2001 میں صحافیوں کو بلا کر صورت حال بتائی تو سب
نے ہاں میں ہاں ملائی کہ افغانستان پر حملہ کے لیئے امریکہ کا ساتھ دینا ضروری ہے۔
لیکن پھر مخالف ہو گئے۔ اسی طرح، جب لال مسجد کے خلاف کاروائی میں تاخیر ہوئی تو
روز طعنے ملتے کہ حکومت اپنے صدر مقام میں بھی کھلم کھلا نافرمانی پر قابو نہیں پا
رہی۔ جب کاروائی ہوئی تو واویلا شروع کر دیا کہ بڑا ظلم ہو رہا ہے۔
میڈیا نے خاں صاحب کو پہلی ٹھبی بار بار یہ پوچھ
کر دی کہ ان کا ایجنڈہ کیا ہے۔ نیازی خان میں اتنی بے نیازی تھی کہ 15 سال تک نہ
رکن سازی کی، نہ پارٹی کی تنظیم کی اور نہ ہی ایجنڈہ تیار کیا کہ اقتدار ملا تو
کیا کیا کام کریں گے۔ غالبا ان کی سوچ تھی کہ جب وزیراعظم یا صدر بن جائیں گے تو
ایجنڈہ بھی طے کر لیں گے۔ جلدی کیا ہے۔ اب جو ہڑبڑا کر جاگے تو بتانے کو پروگرام کیا،
خاکہ تک نہ تھا، سوائے اس کے کہ سب کو انصاف دلائیِں گے۔ یہ بھی واضح نہ کیا کہ کس
طرح۔ ایسے ہی موقع پر کہتے ہیں، وہڑے آئی جنج، ونھو کڑی دے کن۔ صحن میں بارات آ کر
بیٹھی ہے اور دلہن کے کان چھیدے جا رہے ہیں، جو بچپن میں کرنے کا کام تھا۔
جب خاں صاحب کچھ بتاتے تو بات غیرواضح ہوتی یا
کسی اور بات سے متضاد۔ چاہیئے یہ تھا کہ کہتے ابھی ایجنڈہ بتانے کا وقت نہِیں۔
الیکشن کا اعلان ہوگا تو تفصیل سے بتائیں گے۔ صرف عام سی بات کرتے کہ ہر شعبہ میں
انصاف دلائیں گے۔ اس طرح روز روز کے سوالوں سے نجات مل جاتی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے
بھی تو صرف "روٹی، کپڑہ، مکان" کا نعرہ لگایا تھا۔ یہ تو اقتدار میں آنے
کے بعد بھی نہ بتایا کہ کب اور کیسے دیں گے۔
میڈیا میں مخالفین کے زرخرید افراد نے دوسری
ٹھبی لگائی کہ خاں صاحب کے ساتھ تو انتخاب جیتنے والے لوگ ہی نہیں، الیکشن کیسے
جیتیں گے۔ خاں صاحب کو پوچھنا چاہیئے تھا کہ بھٹو نے جب پارٹی بنائی اور الیکشن
لڑا تو اس کے پاس کتنے لوگ تھے جو اپنے بل بوتے پر الیکش جیت لیتے؟ اس کے پاس تو
بیشتر حلقوں میں سرے سے امیدوار ہی نہ تھے۔ جس نے درخاست کی، اسے ٹکٹ دے دیا، چاہے
یونین کونسل کا الیکشن لڑنے کے قابل بھی نہ ہو۔ جب
اپنے طور پر الیکشن جیتنے والے شامل ہوئے تو انھوں نے 1977 کے الیکشن میں وہ گل
کھلائے کہ سب کچھ ڈوب گیا۔
میڈیا کے منہ میں دو دھاری زبان ہوتی ہے۔ جب
دوسری پارٹیوں سے سرکردہ افراد پارٹی میں شامل ہونے لگے تو کہنا شروع کر دیا کہ یہ
پرانے لوگ تو موجودہ نظام کا حصہ رہے ہیں؛ یہ کیسے انقلاب لائیں گے۔ پھر جب نووارد
حسب عادت پارٹی کے اندر جوڑتوڑ شروع کرنے اور پرانے ارکان کو پیچھے دھکیلنے لگے تو
خاں صاحب کے لیئے نئے مسائل پیدا ہو گئے۔
جب مختلف عہدوں کے لیئے نامزدگیاں ہونے لگیں تو
اعتراض ہوا کہ یہ تو وہی غیرجمہوری طریقہ ہے، جو دوسری پارٹیاں اپنائے ہوئے ہیں۔
یہ اعتراض پیدا ہی نہ ہوتا اگر خاں صاحب پارٹی میں نئے آنے والوں سے کہتے کہ
الیکشن میں آزاد حیثیت سے کامیاب ہو کر آئیں تو پارٹی میں شمولیت کر سکیں گے۔ اس
کے بعد عہدہ بھی پارٹی میں انتخابات کے نتیجہ میں ملے گا، نامزدگی سے نہیں۔
کئی ٹھبیاں ابھی بھی لگ رہی ہیں۔ دوہری شہریت
والوں کے الیکشن لڑنے کے سوال پر انھوں نے یہ سوچ کر حمائت کر دی کہ بیرون ملک
حامی ناراض نہ ہوجائیں۔ لیکن جب ملک کے اندر دوہری شہریت والوں کی مخالفت شدید ہو
گئی تو پوزیشن بدل لی۔ آصولی موقف یہ ہونا چاہیئے تھا کہ اول تو دہری شہریت کسی کو
ملنی ہی نہیں چاہیئے۔ جو کسی دوسرے ملک کا شہری بنتا ہے تو ذاتی فائدہ کے لیئے، نہ
کہ ملک کی خاطر۔ غیرملکی کی حیثیت سے وہ یہاں کاروبار کرے، سرمایہ کاری کرے اور
شوکت خانم ہسپتال جیسے فلاحی اداروں کی مدد کرے۔ لیکن اسے ملک کی حکومت میں دخل کی
اجازت ہرگز نہیں ہونی چاہیئے۔ اسے نہ ووٹ کا حق ملنا چاہیئے اور نہ الیکشن لڑنے
کا۔ بلکہ اسے کسی سرکاری عہدہ پر بھی مقرر نہیں کرنا چاہیئے، تاکہ وہ غیرملکیوں کو
کسی طرح ناجائز فائدہ نہ پہنچا سکے۔ اگر مصلحت کے تحت اصول قربان کریں گے تو عوام
کی نظروں سے گر جائیں گے۔
مزید ٹھبیاں بھی لگ سکتی ہیں۔ مثلا، خاں صاحب
کہتے ہیں کہ نصاب تعلیم یکساں کر دیں گے لیکن یہ نہیں کہتے کہ صرف اردو ذریعہ
تعلیم ہوگی۔ نہ ہی انھوں نے کبھی واضح کیا ہے کہ سرکاری زبان صرف اردو ہوگی۔ اس کا
مطلب یہ ہوگا کہ وہ ان براہمنوں کے ساتھ ہیں، جو ذریعہ تعلیم اور دفتری زبان
انگریزی رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کا اقتدار برقرار رہے۔ جب سوال کیا جائے گا کہ
قومی زبان کو قوم کی زبان بنانے کی کیوں حمائت نہیں کرتے تو عمران خاں کیا جواب
دیں گے؟
صدر یا وزیراعظم بن جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ وہ
تو زرداری اور پرویز اشرف بھی بن گئے۔ اصل سوال یہ ہے کہ آپ کرنا کیا چاہتے ہیں۔
اگر کچے پکے مشوروں پر چلیں گے تو کبھی کچھ منہ سے نکلے گا اور کبھی کچھ۔ اور، امریکہ
اور برتانیہ کی حمائت کے طالب ہوں گے تو اسی صف میں کھڑے ہو جائیں گے، جہاں اب تک
کے حکمران کھڑے ہیں۔ سطحی سوچ کے بنے بنائے منصوبوں کو اپنائیں گے تو جلد ہی عوام
کی امیدوں پر پانی پھیر دیں گے۔
سیاست عمل سے ہوتی ہے، رد عمل سے نہیں۔ اگر
میڈیا اور مخالفوں کی باتوں پر رد عمل ہی ظاہر کرتے رہیں گے تو بات نہیں بنے گی۔
اگر کامیاب ہونا ہے تو آپ کا ان سے چار قدم آگے ہونا لازمی ہے۔ سوچ سمجھ کر طے
کریں کہ الیکشن میں اکثریت ملی تو کیا کریں گے، مخلوط حکومت میں شامل ہونا پڑا تو
اپنا ایجنڈہ کیسے آگے بڑھائیں گے اور اگر اقتدار سے باہر رہنا پڑا تو سب کچھ چھوڑ
چھاڑ دیں گے یا اس سے اگلے بلکہ اس سے بھی اگلے الیکشن تک میدان میں رہیں گے۔ اپنے
ساتھیوں اور حامیوں کو صاف گوئی سے بتائیں کہ دس پندرہ سال کے لیئے آپ کا کیا
پروگرام ہے۔
اگر سیاست میں کچھ کرنا ہے تو ڈھنگ سے کریں۔
ورنہ اگلے الیکشن کے بعد وہی کریں جس میں آپ کا دل لگتا ہے۔ شوکت خانم جیسے کئی ہسپتال
اور نمل جیسی کئی جامعات بنائیں۔ آُپ کا نام اور آپ کا کام ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
0 Comments:
Post a Comment
<< Home