میرے ایک عزیز دوست کو پڑھنے لکھنے کے سرکاری کام کے لیئے چند دنوں کے لیئے
میری مدد کی ضرورت پڑی۔ میں ان کے دفتر جانے لگا۔ مجھے الگ کمرہ دے دیا گیا۔ رمضان
کے دن تھے۔ ایک دن ان کا اردلی لنچ بکس اٹھائے میرے کمرہ میں داخل ہوا۔ جونھی اس
کی نظر مجھ پر پڑی، الٹے پائوں لوٹ گیا اور باس سے کہا، "سر، اس کمرہ میں
حمید صاحب بیٹھے ہیں۔ ان کا تو روزہ ہوتا ہے۔"
باس نے سمجھایا، "ان کا روزہ کھانے پینے کی چیزیں دیکھ کر خراب نہیں
ہوتا، نہ ہی وہ دوسروں کو کھاتے پیتے دیکھ کر پریشان ہوتے ہیں۔ اسی لیئے تمھیں
وہاں لے جانے کے لیئے کہا تھا۔" تھوڑی دیر میں وہ اور تین چار افسر میرے کمرے
میں آ گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ وہ کھانا کھاتے رہے اور میں گپ شپ کرتا
رہا۔
سیدھی بات تھی کہ کسی کو کھاتے پیتے دیکھ کر میرا دل کیوں خراب ہو؟ جب میں نے
سوچ سمجھ کر طے کر لیا کہ سحر سے افطار تک کچھ نہیں کھانا پینا تو پھر میرا فیصلہ کھانے
کی چیز یا کسی کو کچھ کھاتے دیکھ کر کیوں کمزور ہو؟ روزہ تو برداشت سکھاتا ہے۔ اگر
اتنی بھی برداشت نہیں تو مجھے دوسروں پر نکتہ چینی کی بجائے روزہ رکھنا ہی نہیں
چاہیئے۔ اگر کسی ریستوران میں روزہ کے پیچھے کچھ لوگ کھانا کھا رہے ہیں یا کوئی
کھانے پینے کی چیزیں خرید کر گھر لے جا رہا ہے تو مجھے کیوں اعتراض ہو؟
روزہ کی طرح نماز بھی فرض ہے۔ اگر کوئی باقاعدگی سے مسجد میں جا کر نماز ادا
کرتا ہے لیکن دیکھتا ہے کہ دفتروں، دکانوں اور بازاروں میں لوگ نماز کے لیئے نہیں
جا رہے بلکہ بہت سے تو اذان ہوتے ہوئے نہ رکتے ہیں اور نہ ہی خاموشی اختیار کرتے
ہیں تو کیا اسے مطالبہ کرنا چاہیئے کہ ان سب کو کوڑے مارے جائیں یا جرمانہ کیا
جائے؟ کل کو کوئی کہے کہ جس کی سلوار ٹخنوں سے نیچے اور داڑھی مقررہ لمبائی کی نہ
ہو تو اسے سزا دی جائے تو کیا یہ مناسب ہوگا؟ طالبان کے ایک لیڈر نے بعد میں کہا
کہ ہم نے عبادات میں بہت سختی کی، جس کے نتیجہ میں لوگوں کی حمائت کھو بیٹھے اور
ہماری حکومت کا خاتمہ آسان ہو گیا۔
ضیاء الحق نے سطحی سوچ رکھنے والوں کے مطالبہ پر احترام رمضان کا قانون نافذ
کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ریستوران اور کھانے پینے کی دکانیں بند ہو گئیں، ان سے
وابستہ لاکھوں لوگ ایک مہینہ کے لیئے بے روزگار ہو گئے۔ سارے دن کی بجائے صرف سحر
اور افطار کے وقت فروخت سے آمدنی میں کمی پوری کرنے کے لیئے کھانے پینے کی چیزوں
کی قیمتیں چڑھ گئیں۔ اس کے باوجود روزہ داروں کی تعداد میں اضافہ نہ ہوا۔ جو کسی
شرعی عذر یا کسی اور وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتے وہ بدستور دوپہر کو کھانا کھاتے رہے۔
(ہاں، ان کے لیئے مشکل ضرور پیدا ہو گئی۔) دوسری طرف قانون نافذ کرنے کے بہانہ
رشوت بڑھ گئی۔ قانون بننے سے پہلے بھِی لوگ رمضان کا احترام کیا کرتے اور سرعام
کھانے پینے سے گریز کیا کرتے تھے۔ قانون نے صرف یہ کیا کہ بہت سے لوگوں کے لیئے
مشکل پیدا کر دی اور بے شمار کو بے روزگار کر دیا۔
احترام رمضان آرڈیننس کا خلاف آئین ہونا کوئی بات نہیں کیونکہ آئین ہمارا ہی
بنایا ہوا ہے اور ہم اس میں جب چاہیں ترمیم کر سکتے ہیں (اور کرتے رہتے ہیں)۔ لیکن
قانون کا خلاف اسلام ہونا یقینا تشویش کی بات ہے۔ ہمارے دین میں جبر نہیں۔ ہمیں
خوش خلقی سے راہ راست پر لانے کا حکم ہے۔ امام حسن نے دیکھا کہ ایک بدو غلط طریقہ
سے وضو کر رہا ہے۔ انھوں نے اسے ڈانٹنے کی بجائے کہا، "آپ بزرگ ہیں۔ آپ کو
زیادہ علم ہوگا۔ میں وضو کرتا ہوں۔ اگر کوئی غلطی ہو تو بتا دیں۔" بدو خاموشی
سے دیکھتا رہا اور صحیح طریقہ سیکھ لیا۔
احترام رمضان قانون میں ہے کیا؟
آئیں دیکھیں کہ احترام رمضان آرڈینینس کی مختلف دفعات میں کیا گیا ہے۔ (متن
نیچے دیا گیا ہے۔)
دفعہ 2 میں "پبلک پلیس" کی تعریف میں ہوٹل ریستوران، کینٹین، گھر،
کمرہ، خیمہ، احاطہ، ذیلی سڑک، پل اور ایسی جگہیں، جس تک پبلک کی رسائی ہو، شامل
کیا گیا ہے۔ کیا گھر اور کمرہ بھی عام لوگوں کی رسائی کی جگہیں ہو سکتی ہیں؟
دفعہ 3 کے مطابق روزہ کے اوقات میں کسی شخص کے پبلک پلیس میں کھانے پینے ہی
نہیں، سگرٹ پینے پر بھی پابندی ہوگی، بشرطیکہ شریعت کے مطابق اس پر روزہ فرض ہو۔ کون
طے کرے گا کہ کھانے پینے والے پر روزہ فرض ہے یا نہیں؟ کوئی وضاحت نہیں۔
دفعہ 5 کے تحت ہسپتال، ریلوے سٹیشن، ریل گاڑی، ہوائی اڈہ، ہوائی جہاز، بندرگاہ
اور بس اڈہ پر پابندی نہیں ہے۔ کیا بس، ویگن، یا کسی اور موٹر گاڑی میں کھانے پینے
کی اجازت ہے؟ وضاحت نہیں۔
دفعہ 6 کے تحت سینما، تھیئٹر اور ان جیسی جگہیں افطار کے بعد تین گھنٹے تک بند
رہیں گی۔ کیا اس طرح فلم یا ڈرامہ دیکھنے والے تراویح کے لیئے چلے جائیں گے؟ اگر
وہ ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ جائیں تو کیا تمام چینل تین گھنٹے کے لیئے بند کر دیئے جائِیں؟
دفعہ 7 کے تحت اگر شک ہو کہ قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے توپبلک پلیس میں داخل ہونے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو
گرفتار کرنے کی اجازت ان افراد کو ہے: میجسٹریٹ، ضلع کونسل، میونسپل کمیٹی یا
ٹائون کمیٹی کا چیئرمین، میونسپل کارپوریشن کا میئر، زکات و عشر کمیٹی کا چیئرمین
یا رکن۔ انتظامی میجسٹریٹ کا عہدہ ختم ہونے کے بعد اب جوڈیشنل میجسٹریٹ صرف عدالتی
کاروائی کر سکتا ہے۔ اسے موقع پر کسی کو گرفتار کرنے کا اختیار نہیں۔ مقامی
حکومتوں کے نظام کے 2001 میں نافذ ہونے کے بعد سے دوسرے تمام عہدے ختم ہو چکے ہیں۔
صرف زکات و عشر کی کمیٹیاں رہ گئی ہیں۔ اب گرفتاری کا اختیار کس کے پاس ہے؟
دفعہ 8 کے تحت کوئی عدالت کاروائی نہیں کرے گی جب تک گرفتاری کا اختیار رکھنے
والا تحریری شکائت نہ کرے۔
حیران کن امر یہ ہے کہ پولیس کو کسی پبلک پلیس میں داخل ہونے یا کسی کو گرفتار
کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔ جس تھانہ میں گرفتاری کا اختیار رکھنے والا کسی خلاف
ورزی کرنے والے کو لے کر آئے۔ وہاں کا صرف تھانیدار عدالت میں 24 گھنٹے میں شکایت
درج کرا سکتا ہے۔
دفعہ 9(2) میں کہا گیا ہے کہ دفعہ 5 کے تحت کینٹین، ریستوران اور ڈائیننگ کار
میں روزہ کے اوقات میں کھانے پینے کی اشیا اور سگرٹ دینے کی اجازت ہے، بشرطیکہ پردہ
کا انتظام کیا گیا ہو تاکہ لوگوں کی نظر نہ پڑے۔ جب پردہ کی اجازت ہے تو
پابندی کا مطلب؟
کیا یہ قانون قرآن و سنت کے مطابق ہے؟
آئین کی دفعہ 227 کے مطابق تمام موجودہ قوانین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق
بنایا جائے گا، جیسا کہ قرآن مجید اور سنت میں صراحت کی گئی ہے۔ اور نہ ہی ان کے
خلاف کوئی نیا قانون بنایا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی نظریاتی کونسل سے اس
آرڈینینس کی منظوری لی گئی، نافذ کرنے سے پہلے یا بعد میں؟ کیا یہ اسلامی تعلیمات
کے مطابق ہے؟ اس بارے میں عدالت سے رجوع کرنا ہوگا۔
آرڈیننس کا جائزہ لینے سے واضح ہو جاتا ہے کہ قانون بے معنی ہو چکا ہے۔ اس میں
وضاحت نہیں کہ کون طے کرے گا کہ روزہ رکھنا کس پر فرض ہے، گھر اور کمرہ میں کھانے
پینے پر پابندی ہو، سینما اور تھیئٹر پر افطار کے بعد بھی تین گھنٹے بند رکھنے کی
پابندی ہو، گرفتاری کا اختیار رکھنے والے تمام عہدیدار ختم ہو چکے ہوں، اس کا نفاذ
موجودہ شکل میں بھی ممکن نہیں۔ تو کیوں نہ اسے منسوخ کر دیا جائے؟ اگر حکومت خود
نہ کرے تو عدالت سے رجوع کر کے ختم کرایا جا سکتا ہے۔
دین کے نام پر سیاست کرنے والے کچھ لوگ شور مچائیں گے، مظاہرے کریں گے لیکن اس
کی پروا نہیں کرنی چاہیئے۔ یقین رکھیں لوگ پھر بھی رمضان کا احترام کرتے رہیں گے،
جیسے صدیوں سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ صرف یہ ہوگا کہ بہت سے لوگوں کی پریشانی ختم ہو
جائے گی اور بہت سوں کا روزگار چلتا رہے گا۔ سب سے بڑی بات یہ ہوگی کہ منافقت ختم
ہو جائے گی۔ اسلام میں منافقت حرام ہے، فرض نہیں۔
THE EHTRAM-E-RAMAZAN ORDINANCE, 1981
1. Short title, extent and commencement
3. Prohibition of eating, etc, in public
places
4. Prohibition of serving eatables in certain
public places
6. Cinema-houses, theatres, etc., to
remain closed during Ramazan
7. Power to enter and arrest
8. Cognizance of offences and procedure
10. Ordinance to override other laws
TEXT
THE EHTRAM-E-RAMAZAN ORDINANCE, 1981
to provide for measures observe the sanctity of
the month of Ramazan
Preamble.— Whereas, in view of the tenets
of Islam, it is necessary to provide for measures to observe the sanctity of the
month of Ramazan;
And whereas the President is satisfied that
circumstance exist which render it necessary
to take immediate action;
Now, therefore, in exercise of the powers
conferred by Article 89 of the Constitution, read
the Provisional Constitution Order, 1981 (C.M.L.A. Order No. 1 of 1981),
the President is pleased to make and
promulgate the following Ordinance:-
1. Short title, extent and commencement.— 1)
This Ordinance may be called the Ehtrame-Ramazan Ordinance, 1981.
(2) It extends to the whole of Pakistan.
(3) It shall come into force at once.
2. Definition.— In this Ordinance, unless
there is anything repugnant in the subject or
context, “public place” include any hotel, restaurant, canteen, house,
room, tent, enclosures, road
lane, bridge or other place to which the public have access.
3. Prohibition of eating, etc, in public
places.— (1) No person who, according to the tenets of Islam, is under an
obligation to fast shall eat, drink or smoke in a public place during fasting hours in the month of Ramazan.
(2) Whoever contravenes the provisions of
sub-section (1) shall be punishable with simple imprisonment for a term which
may extend to three months, or with fine which may extend
to five hundred rupees, or with both.
4. Prohibition of serving eatables in certain
public places.— No proprietor, manager,
servant, or other person in charge of a hotel, restaurant or canteen, or
other public place, shall knowingly
and willfully offers or serve or cause to be offered or served any eatable
during fasting hours in the
month of Ramazan to any person who, according to the tenets of Islam, is under
an obligation to fast.
(2) Whoever contravenes the provisions of
sub-section (1) shall be punishable with simple imprisonment for a ten which
may extend to three months, or with fine which may extend
to five hundred rupees, or with both.
5. Exemptions.— Nothing contained in
section 4 shall apply in respect of --
(a) a canteen or kitchen maintained in a
hospital for serving food to patient;
1[(b) A restaurant, or canteen, stall or
wheel-barrow, or the holder of vending contract, within the premises of a
railway station or in a train or a restaurant or canteen within
the premises of an airport, seaport, or bus stand or in an aircraft;]
(c) A kitchen or dining-car of a train; or
(d) a kitchen or canteen meant for children within
the premises of a primary school.
6. Cinema-houses, theatres, etc., to
remain closed during Ramazan.—
(1) All cinema-houses, theatres and similar other
establishments or institutions shall remain closed during the month of Ramazan
from the time of sunset to the expiration of three
hours thereafter.
(2) If the proprietor, manager, servant or other
person in charge of a cinema-house, theatre or
similar other establishment or institution contravenes the provisions of
sub section (1), he shall be
1 Clause (b) Subs. by the
Ehtram-e-Ramzan (Amendment), XXIX of 1981. punishable with imprisonment for a
term which may extend to six months, or with fine which may
extend to five thousand rupees or with both.
7. Power to enter and arrest.— 1)any
Magistrate, the Chairman of a District Council or a
Municipal Committee or a Town Committee, the Mayor of a Municipal
Corporation, or the Chairman or
a member of a District Zakat and Ushr Committee has reason to believe that any offence punishable under may enter the
public place and arrest such person.
(2) Where the Magistrate arresting any person
under sub-section. (1) is for the time
being empowered to try in a summary way the offences specified in
sub-section (1) of section 260
of the Code of Criminal Procedure, 1898 (Act V of 1898), such Magistrate
may try such person at the place
where lie is arrested in accordance with the provisions contained in sections
262 to 265 of the said
Code.
8. Cognizance of offences and procedure.— (1)
Save as provided in sub section (2) of
section 7 no court shall take cognizance of any offence punishable under
this Ordinance except on a
complaint in writing made by a person authorized to arrest under sub section
(1) of that section or
by the officer in charge of the police station in whose jurisdiction the
offence is alleged to have been
committed.
(2) Any Magistrate empowered for the time being to
try in a summary way the offences specified in sub section (1) of section 260
of the Code of Criminal Procedure, 1898 (Act V of
1898) may try any offence
punishable under the Ordinance in accordance with the provisions
contained in sections 262 to 265 of the said Code.
(3) The officer in charge of the police station to
which a person arrested is forwarded
under sub section (3) of section 7 shall make a complain to a Magistrate
within twenty four hours to the time
on which such person is brought to the police station.
(4) The trial of an offence punishable under this
Ordinance shall be taken up on a
priority basis and shall be concluded as expeditiously as may be
administratively possible.
9. Power to make rules.— (1) The Federal
Government may make rules for carrying out the
purposes of this Ordinance.
(2) In particular and without prejudice to the
generality of the foregoing provisions such rules may provide that in a canteen
restaurant or dining car referred to in clause (1), (b), (c) or (d) of section 5 eatables or articles of
smoking shall only be served at a place protected form public
view by means of a curtain or otherwise and specify the classes of
persons who may be admitted to any such
canteen, restaurant, or dining car during fasting hours in the month of
Ramazan.
(3) A person contravening any rule made under sub
section (1) shall be deemed to be guilty of an offence punishable under section
4 and shall be punishable accordingly.
10. Ordinance to override other laws.— The
provisions of this Ordinance shall have effect،notwithstanding anything contained in
any other law for the time being in force.